Pages - Menu

صفحہ اول

Monday, December 10, 2018

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا

تحریر: عمر اثری سنابلی


پہلے سوچا کہ کیا لکھوں کہ جہالت و نادانی کو اہمیت دینے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن لوگوں نے اصرار کیا اور کہا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے لہذا ان کے کہنے پر یہ کچھ جملے ندیم پوری صاحب آپ کے گوش گزار کرنے کی سعی کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے یہ کہ آپ اپنی حیثیت نہ بھولیں کہ آپ ایک عامی ہیں لہذا عامی کے جیسا برتاؤ کریں۔
دوسرے یہ کہ کیا آپ کو علماء پر طعن کا نقصان نہیں معلوم؟ کیا آپ نبی ﷺ کے طریقہ سے ہٹنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان پر ذرا غور کریں:
ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا
ترجمہ: جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے علماء کی قدر نہیں کرتا وہ میری امت میں سے نہیں۔
(صحیح الترغيب للالبانی، حدیث نمبر: 101)

کیا آپ کو قیامت کی مفلسی سے ڈر نہیں لگتا؟ نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا؛ فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ؛ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ
ترجمہ: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی ساز و سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہوگی، اس پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہوگا، اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2581)

کیا آپ کو ناکامی سے ڈر نہیں لگتا؟ ابوسنان الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا كان طالب قبل أن يتعلم مسألة في الدين يتعلم الوقيعة في الناس؛ متى يفلح؟
ترجمہ: جب طالب علم دین کا کوئی مسئلہ سیکھنے سے پہلے علماء پر طعن کو سیکھے گا تو کیسے کامیاب ہوگا؟
(ترتیب المدارک ط اوقاف المغرب: 4/104)

مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مالک بن دینار رحمہ اللہ کے قول کے مصداق نہ ہو جائیں! انہوں نے فرمایا تھا:
كَفَى بِالْمَرْءِ شَرًّا أَنْ لَا يَكُونَ صَالِحًا، وَهُوَ يَقَعُ فِي الصَّالِحِينَ
ترجمہ: آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خود نیک نا ہو اور نیک لوگوں کی عیب جوئی (اور غیبت) کرے۔
(شعب الایمان للبیہقی ط الرشد: 9/121، حدیث نمبر: 6358)

کیا آپ کو اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں؟؟؟ ذرا امام احمد بن اذرعی رحمہ اللہ کے قول پر بھی غور فرما لیں:
الوقيعة في أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب
ترجمہ: اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور سے انکے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ 
(الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی: 283)

اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من استخف بالعلماء ذهبت آخرته،
ترجمہ: جس نے علماء کی توہین کی اسکی آخرت برباد ہو گئی۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: 8/408)

جناب مجھے آپ کا یہ دوھرا رویہ پسند نہیں آیا کہ جب کوئی یزید رحمہ اللہ پر سب و شتم اور طعن کرتا ہے تو آپ ”تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ“ (یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کیا وه ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔) اور ”لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ“ (جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو) جیسے نصوص کو پیش کر کے ان کا دفاع کرتے ہیں جو کہ قابل تحسین عمل ہے لیکن آپ خود ان نصوص کو بھلا کر ایک فوت شدہ عالم پر طعن کر رہے ہیں؟ ان پر سب و شتم کرتے ہوئے ان سے محبت کا دعوی کرنے والوں کو ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کے مقلدین کے مشابہہ قرار دے رہے ہیں؟ یہ کیسا عمل ہے؟ رکئے جناب مجھے آپ کی اس بات (بکواس) پر حیرت و افسوس کا اظہار کر لینے دیجئے کہ ایک اہل حدیث بھی اس طرح کی جرات کر سکتا ہے؟ اور یہاں مجھے ایک شعر بھی پڑھ لینے دیجئے کہ آپ اس کے مصداق نظر آتے ہیں:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

آپ ایک ایسے عالم جو کہ برصغیر کے نہیں ان کی باتوں کو بنیاد بنا کر نہ جانے کیسے کیسے الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں اور خود بر صغیر کے علماء کے تعریفی اقوال کو فراموش کر بیٹھے ہیں؟
آپ کو اگر دو چار خطبے مل گئے تو آپ عالم نہیں بن گئے ہیں اور نہ آپ کچھ مناظرے کر کے مناظر ہو گئے ہیں کہ آپ ہمیں بتائیں کہ کون عالم کیسا ہے۔ یہ تو کبار علماء اور متخصصین کا میدان ہے وہ ضرورت سمجھیں گے تو کسی پر نقد کریں گے اور ضرورت محسوس نہیں کریں گے تو نہیں کریں گے۔
جناب! غلطی کس سے نہیں ہوتی ہے؟؟؟ بتائیں!!! کیا آپ سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا؟؟؟ اگر ہاں اور یقینا ہاں تو کیا غلطی کی اصلاح لعن طعن اور سب و شتم کر کے کی جاتی ہے؟؟؟ وہ بھی کسی کی وفات کے بعد؟؟؟؟ جناب یہ کام آپ علماء پر چھوڑ دیں اور خود کو ایسے کام کا مکلف نا بنائیں جس کے آپ مکلف نہیں!
یاد رکھیں آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ لہذا رب تعالی کے حضور جواب دہی کے احساس کو زندہ کریں اور اپنے اوقات کو مفید سرگرمیوں میں لگائیں اور علماء خصوصا کبار علماء پر زبان درازی سے گریز کریں۔

آخر میں جو اس طرح ہر کسی کی باتوں کو اہمیت دے کر اس کو اس کے مقصد میں کامیاب کرتے ہیں ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہ دیا کریں ایسے لوگوں کے طعن سے کسی عالم کی عزت نہیں گھٹتی۔ ایسے لوگوں کو اگر آپ اہمیت نہیں دیں گے تو دوچار لفظ بول کر خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔
بڑا افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ ہمارے اخوان دفاع کرتے ہوئے گالیوں سے جواب دے رہے ہیں۔ اور کچھ اخوان تو رد کرنے کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کچھ کہتا ہے فورا نام لے کر سوشل میڈیا پر رد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ رد وغیرہ علماء کا کام ہے آپ کا نہیں۔ علماء کو مناسب لگے گا تو کسی کی تردید کریں گے وگرنہ نہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ علماء دور اندیش ہوتے ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفتنةُ إذا أقبلت عرفها كل عالم، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل
ترجمہ: فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو جاھل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: 4/322، طبقات ابن سعد: 9/166)

1 comment:

  1. جزاک اللہ خیرا کثیرا شیخ عمری صاحب 👍👍👍

    ReplyDelete