علماء کرام سے تنفیر کا فتنہ—اسباب و علاج
تحریر: عمر اثری بن عاشق علی اثری
تاریخ شاہد ہے کہ دشمنان اسلام نے اسلام کو مٹانے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے مختلف اقسام کے حربوں کو اختیار کیا ہے۔ کبھی وہ قرآن و حدیث کی خدمت کے نام پر قرآن و حدیث میں دخل اندازی کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے افکار و نظریات کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے اپنے افکار و نظریات کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور ان کے اذہان میں یہ فکر اور سوچ بٹھانے کی سعی کرتے ہیں کہ اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے تو ہمارے جدید نظام تعلیم کو اختیار کرو اور کبھی وہ اسلام مخالف منظم تحریکات چلاتے ہیں جو کہ بظاہر اسلام کے مفاد اور حق میں معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ تحریکات اسلام کے بالکل منافی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے ہیں اور اخوت اسلامی کی مقدس روح کو ناپاک کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب ان کے دام فریب میں آکر خود مسلمان اسلام مخالف عمل کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ دین کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے والے خواہ مسلمان ہوں اور مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں یا غیر مسلم ہوں اور غیر مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں سب کی خطرناکی اور زہرناکی قریب قریب یکساں نظر آتی ہے بلکہ بسا اوقات مسلم نام کے حامل افراد کی خطرناک کچھ زیادہ ہی سنگین ہوتی ہے۔
یہ تمام کوششیں دشمنان اسلام کو ناکافی لگیں کیونکہ انہیں علماء اسلام کے مقام و مرتبہ کا اعتراف تھا اور انہیں یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق علماء حق اور علماء ربانیین سے بنا رہے گا وہ اسلام پر باقی رہیں گے۔ لہذا انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر عام مسلمانوں کو وارثین انبیاء یعنی علماء حق سے دور کرنے کی سازشیں شروع کیں اور علماء کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت اور دوری پیدا کی کہ وہ صحیح اسلام سے دور ہوگئے۔ نتیجتا ہر کس و ناکس نے دین میں دخل اندازی شروع کردی اور دین کی ایسی ایسی تشریحات کیں کہ اسلام کی شبیہ بگڑ کر رہ گئی۔ دین معاشرے، معیشت اور بازاروں سے نکل گیا اور دھیرے دھیرے گھروں سے بھی نکل کر مساجد و مدارس میں خستہ حالی کی زندگی جی رہا ہے۔ کبھی کبھار دینی اجلاس و کانفرنسوں میں اپنی رہی سہی شان کے ساتھ کسی شہر میں یا سوشل میڈیا پر کہیں نظر آجاتا ہے۔ ورنہ ایسا لگتا ہے کہ اب رخصت ہوا کہ تب رخصت ہوا۔
سادہ لوح عوام شعوری و غیر شعوری طور پر تعلیمات اسلامی سے برگشتہ ہونے لگے، الحاد و زندیقیت وغیرہ اپنا سر اٹھانے لگے اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔ عیسائی مشنریز اور انگریزوں کی پیداوار اور انکی پروردہ قادیانیت بھی اپنے جامہ سے باہر آگئی اور مسلمانوں کو غربت، بے روزگاری اور زندگی کے دیگر مسائل کی آڑ لے کر دین سے پھیرنا شروع کر دیاـ سچ ہے:
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
مختصر یہ کہ عوام نے علماء کو ناکارہ تصور کر لیا اور تمام علماء کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے انکو علماء بنی اسرائیل کے مشابہ قرار دے دیا بلکہ کچھ ناعاقبت اندیشوں نے تو علماء کو فرقہ پرست، بزدل، جہنمی اور نہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازنا شروع کر دیا۔ علماء کی اہمیت ختم ہونے لگی اور جہلاء و متعالمین کا بول بالا ہونے لگا اور انھیں کو حقیقی دعاۃ اور مبلغین سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ علماء کرام کی جماعت اس جہاں میں انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل جماعت ہے۔ وہی تو اس امت کے محافظ ہیں، دین کی حفاظت و صیانت، تفسیر و تشریح اور دعوت و تبلیغ انھیں کی ذمہ داری ہے۔ انھیں کی بدولت ہی تو کتاب و سنت کا علم اس دنیائے فانی میں باقی ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
ترجمہ: اللہ ﷻ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے۔ لہذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: ١۰۰)
غور فرمائیں! نبی اکرم ﷺ نے علماء ربانیین کی وفات کو علم کا خاتمہ بتایا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ علماء کرام ہی وہ ستارے ہیں جن کے ذریعہ جہالت کی تاریکی کو علم کی روشنی میں بدلا جا سکتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔
(سورۃ النحل: ٤٣)
یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم ﷺ نے علماء حق کو وارثین انبیاء قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ
ترجمہ: علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ٣٦٤١، سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۲٦۸۲، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۲٣، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
علماء حق کے فضائل میں وارد نصوص سے اعراض:
علماء کی تحقیر و توہین اور ان پر لعن طعن کرنے والوں کو یہ اور اس طرح کی بے شمار نصوص جن میں علماء حق کے فضائل وارد ہوئے ہیں، ہضم نہیں ہوتیں یا شاید وہ جان بوجھ کر ان نصوص سے صرف نظر کرتے ہیں، لہذا انھیں صرف وہ نصوص نظر آتے ہیں جن میں علماء سوء کی مذمت وارد ہے اور انھیں نصوص کو بنیاد بنا کر وہ تمام علماء، خواہ وہ علماء حق ہوں یا علماء سوء، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ روش اور طریقہ تو خوارج کا ہے کہ جو وعید کے نصوص کو لیتے ہیں اور وعد کے نصوص کا انکار کر دیتے ہیں۔ یا یہ طریقہ اہل ہوی کا ہے جو اپنے نفس کی اتباع میں اپنے مطلب کی باتوں کو لیتے ہیں جبکہ مخالف باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
علماء پر فتووں کی پوچھار:
ان کے قدم یہیں تک رکے رہتے تو کچھ غنیمت بھی تھا لیکن ان لوگوں نے علماء کرام کی تذلیل و اہانت میں چار قدم آگے بڑھ کر ان پر فتوے بازی شروع کردی، لہذا کبھی وہ علماء کرام کو اللہ کے ڈر اور خوف سے عاری قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی حقیقی معنیٰ میں اللہ سے ڈرتا ہے تو علماء حق ہی ہیں۔ فرمان الہی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
ترجمہ: اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
(سورۃ فاطر: ۲۸)
بھلا بتائیے! کیا علمائے کرام کے علاوہ اللہ سے کوئی نہیں ڈرتا؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ سے ڈرنے والے تو بہت سارے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن علماء کے ڈر اور خوف کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے اسی لئے اللہ رب العالمین نے ان کے ڈرنے اور خوف کھانے کی مثال دی ہے۔
کبھی وہ علماء کرام کو مذہبی منافرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ علماء رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام وغیرہ کی احادیث بیان کرتے ہیں۔ ان کی بیان کردہ وجوہات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ علماء صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چھوڑ کر ”یہ بھی صحیح اور وہ بھی صحیح“ کا نعرہ لگانا شروع کر دیں۔ حالانکہ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث تو ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کے بالمقابل کسی کو ترجیح نہ دیں۔ اب اگر اس سے کسی کو لگتا ہے کہ مذہبی منافرت پھیلتی ہے اور لوگ فرقوں میں بٹتے ہیں تو اس کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث بیان کرنے سے ہی اتحاد کی فضا قائم ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کے افکار و آراء بیان کرنے سے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں وحی الہی ہیں۔
اسی طرح کبھی وہ علماء کو بزدلی اور مصلحت پرستی کا طعنہ دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ علماء کرام بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت اپنا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔ البتہ وہ وقتی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں۔ انہیں معاشرتی و حکومتی مصالح اور مفاسد کا بخوبی علم ہوتا ہے اسی لئے وہ احتیاط برتتے ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفتنةُ إذا أقبلت عرفها كل عالم، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل
ترجمہ: فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو جاھل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: ٤/٣۲۲، طبقات ابن سعد: ۹/١٦٦)
ہم کیسے تیراک رہے ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے
خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا
علماء کی تحقیر اور ان پر طعن کا نقصان:
علماء کرام کا مذاق اڑانا اور ان پر طعن و تشنیع کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ البتہ دور حاضر میں خصوصا سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کا حیطہ عمل وسیع ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ لہذا علماء کو تمسخرانہ انداز میں "ملا“ اور ”جاہل مولوی“ وغیرہ جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے۔ حالانکہ علماء کرام کی توہین و تحقیر پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ چنانچہ علماء سے دشمنی اللہ سے جنگ ہے۔ حدیث قدسی میں فرمان الہی ہے:
مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ
ترجمہ: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: ٦٥۰۲)
اسکی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الْمُرَادُ بِوَلِيِّ اللَّهِ الْعَالِمُ بِاللَّهِ الْمُوَاظِبُ عَلَى طَاعَتِهِ الْمُخْلِصُ فِي عِبَادَتِهِ
ترجمہ: اللہ کے ولی سے مراد عالم باللہ (جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو) ہے، جو اسکی اطاعت میں ہمیشگی اور دوام برتتا ہے اور اسکی عبادت میں مخلص ہے۔
(فتح الباری: ١١/٣٤۲)
اس کے علاوہ جو علماء کے حق کو نہیں پہچانتا اور ان کی توہین کرتا ہے وہ نبی ﷺ کے طریقہ پر نہیں۔ فرمان نبوی ہے:
ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا
ترجمہ: جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے علماء کی قدر نہیں کرتا وہ میری امت میں سے نہیں۔
(صحیح الترغيب للالبانی، حدیث نمبر: ١٠١)
علماء سلف نے بھی علماء کی توہین و تحقیر اور ان پر طعن و تشنیع سے ڈرایا ہے۔ چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلماء السلف من السابقين، ومن بعدهم من التابعين – أهل الخير والأثر، وأهل الفقه والنظر – لا يذكرون إلا بالجميل، ومن ذكرهم بسوء، فهو على غير السبيل
ترجمہ: سابقین علماء سلف اور ان کے بعد تابعین اہل خیر اور علم و فقہ والے ہیں، ان کا صرف ذکر جمیل کیا جائے گا اور جو انکا ذکر برے طریقہ سے کرتا ہے وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔
(شرح العقیدہ الطحاویہ بتحقیق الارنؤوط: ٧٤۰)
اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من استخف بالعلماء ذهبت آخرته، ومن استخف بالأمراء ذهبت دنياه، ومن استخف بالإخوان ذهبت مروءته
ترجمہ: جس نے علماء کی توہین کی اسکی آخرت برباد ہو گئی اور جس نے امراء کی اہانت کی اسکی دنیا چلی گئی اور جس نے بھائیوں کی ناقدری کی اسکی مروءت ختم ہو گئی۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: ۸/٤۰۸)
امام احمد بن اذرعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الوقيعة في أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب
ترجمہ: اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور سے انکے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی: ۲۸٣)
مذکورہ بالا احادیث اور اقوال سلف سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہئے، علمائے کرام کی توقیر و تکریم کرنی چاہئے اور ان کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینا چاہئے۔ اختلاف رائے رکھنے کا حق سب کو ہے لیکن اس کے کچھ حدود و قیود ہیں، لہٰذا شائستگی سے اختلاف رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بے ادبی، سطحیت اور تذلیل و حقارت کسی صورت میں جائز نہیں۔ یاد رکھیں! علماء پر بہتان لگانا، سنی سنائی باتوں کو ان کی طرف منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کرکے اپنے علمیت ظاہر کرنا بجز جہالت کے اور کچھ نہیں۔
ان حالات کے اسباب:
ان حالات کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں، ان میں سے چند اہم اسباب کو میں قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
(١) علماء سو کی بدکرداریاں:
علماء سوء کی وجہ سے عوام نے علماء سے دوری بنانی شروع کر دی اور یہ سمجھ لیا کہ علماء تمام کے تمام بدکردار اور برے ہی ہوتے ہیں۔ یہی سوچ علماء سے تنفر کے پیچھے کار فرما ہے۔
(۲) علماء اور عوام کے درمیان دوری:
اعدائے اسلام کی سازشوں اور کچھ نام نہاد مسلمانوں کی بنا پر عوام نے علماء سے دوری اختیار کرلی اور علماء نے بھی عوام سے ربط و تعلق کی کوشش نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء عوام سے قربت کے ذرائع اختیار کرتے، لیکن بجز کچھ علماء کے اکثریت نے کوئی مناسب ذریعہ اور وسیلہ اختیار نہیں کیا اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے دلدادہ علماء کے پاس عوام کے لئے وقت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوانان ملت اسلامیہ کی ذہن سازی علمائے حق کی بجائے اہل مغرب اور مغربی تہذیب کے مقلد افراد کر رہے ہیں۔
(٣) سوشل میڈیا:
ستم ظریفی یہ ہے کے عوام کے پاس ایک تو علم دین کی کمی ہے، دوسرے جو کچھ ہے وہ بھی سوشل میڈیا کی دین ہے جو بدعات و خرافات، سازشوں اور غلط فہمیوں کی ملاوٹ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ اور سبب کافی حد تک خود علماء کا رویہ ہے۔ انہوں نے عوام کی تربیت اور ذہن سازی پر دھیان دینا ترک کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کے عوام نے سوشل میڈیا ہی کو حصول علم دین کا ذریعہ بنا لیا اور مساجد و مدارس سے تعلق ختم کرلیا اور سوشل میڈیا سے رطب و یابس ہر چیز علم دین کے نام پر حاصل کرنا شروع کر دیا۔
(٤) حصول علم میں احتیاط نہ کرنا:
اگر بچوں کا کسی اسکول میں داخلہ کرانا ہو تو اس کی خوب جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ بچوں کا مستقبل تابناک ہو سکے۔ اسی طرح علاج کرانے کے لئے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ”نیم حکیم خطرہ جان“ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جھولا چھاپ ڈاکٹروں سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ علاج صحیح ڈھنگ سے ہوسکے اور نقصان کے بجائے فائدہ ہو۔ لیکن بیچارہ دین اتنا ارزاں اور حقیر ہو گیا ہے کہ لوگ دین کا علم کسی سے بھی حاصل کر لیتے ہیں اور آج یہی ہو رہا ہے، لہذا امت مسلمہ حصول علم دین کے سلسلے میں احتیاط کو پرے رکھتے ہوئے ہر کس و ناکس سے دین کا علم حاصل کر رہی ہے۔ اور جب ہر کس و ناکس سے علم دین کا حصول ہوگا تو ظاہر سی بات ہے فساد و بگاڑ اس امت کا مقدر بن جائے گا۔ چنانچہ ”علم دین کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے“ اور ”حق جہاں سے ملے لے لینا چاہئے“ اسی طرح ”جو حق ہو اسے لے لو باقی کو چھوڑ دو“ جیسے پر فریب نعرے آج امت مسلمہ خصوصا نوجوانان ملت کے خاصے بن چکے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ چنانچہ ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ
ترجمہ: یہ علم، دین ہے، لہذا دیکھ لو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو۔
(مقدمہ صحیح مسلم)
اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ هُوَ لَحْمُكَ وَدَمُكَ، وَعَنْهُ تُسْأَلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَانْظُرْ عَنْ مَنْ تَأْخُذُهُ
ترجمہ: یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے، اس کے بارے میں قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا، لہذا دیکھ لیا کرو کہ اسے کس سے حاصل کر رہے ہو؟
(مؤطا امام مالک بتحقیق الاعظمی: ١/۲٥، المحدث الفاصل لرامہرمزی: ٤١٦)
امام مالک رحمہ اللہ کا ہی ایک دوسرا قول ہے، فرماتے ہیں:
إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ لَقَدْ أَدْرَكْتُ سَبْعِينَ مِمَّنْ يَقُولُ: قَالَ فُلَانٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْأَسَاطِينِ، وَأَشَارَ إِلَى مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا أَخَذْتُ عَنْهُمْ شَيْئًا، وَإِنَّ أَحَدَهُمْ لَوْ أُؤْتُمِنَ عَلَى مَالٍ لَكَانَ بِهِ أَمِينًا لِأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا مِنْ أَهْلِ هَذَا الشَّأْنِ، وَيَقْدِمُ عَلَيْنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ فَيُزْدَحَمُ عَلَى بَابِهِ
ترجمہ: یہ علم، دین ہے لہذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو، میں نے ستّر لوگوں کو اللہ کے نبی ﷺ کی مسجد میں ستون کے پاس یہ کہتے ہوئے پایا کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن میں نے ان سے کچھ نہ لیا، جبکہ وہ سب سب اس قدر امین تھے کہ اگر انہیں مال پر نگراں مقرر کر دیا جاتا تو وہ امانت دار نکلتے لیکن وہ اس فن کے اھل نہ تھے۔ (ان کے بالمقابل) محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جب ہمارے پاس تشریف لاتے تو ان کے دروازے پر ہجوم لگ جایا کرتا۔
(الفقیہ والمتفقہ علیہ: ۲/١۹٤)
بلکہ ہمارے اسلاف حصول علم دین میں احتیاط نہ کرنے کی بنا پر ہاتھ تک اٹھا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
رَأَى ابْنَهُ عِنْدَ قَاصٍّ، فَلَمَّا رَجَعَ اتَّزَرَ وَأَخَذَ السَّوْطَ وَقَالَ : أَمَعَ الْعَمَالِقَةِ! هَذَا قَرْنٌ قَدْ طَلَعَ
ترجمہ: انھوں نے اپنے بیٹے کو ایک قصہ گو کے پاس دیکھا۔ جب وہ گھر لوٹے تو ازار باندھا اور کوڑا لیکر اپنے بیٹے کو یہ کہ کر پیٹنے لگے کہ کیا عمالقہ کے ساتھ بیٹھتے ہو، یہ ایجاد کردہ بدعت ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ١٣/٣٦۲، حدیث نمبر: ۲٦٧۲١)
ذرا سوچیں اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا یہ زمانہ خیرالقرون سے بہتر ہے؟ یا من جملہ اس زمانے کے لوگ خیرالقرون کے لوگوں سے بہتر ہیں؟ اگر اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے اور حقیقت ایسی ہی ہے تو اللہ کے واسطے اسلاف کے طریقہ اور منہج پر چلیں اور ہر کس و ناکس سے علم دین کے حصول سے بچتے ہوئے صرف ان لوگوں سے علم دین حاصل کریں جن کے علم کی گواہی اور جن کا تزکیہ علماء حق نے کیا ہو۔ یہی تعلیم عبد الرحمن بن یزید بن جابر رحمہ اللہ نے دی ہے۔ فرماتے ہیں:
لا يؤخذ العلم إلا عمن شهد له بالطلب
ترجمہ: علم اس شخص سے حاصل کیا جائے جس کے متعلم ہونے کی اہل علم نے گواہی دی ہو۔
(الکفایۃ للخطیب: ١/٣٧٥)
یاد رکھیں! اس امت میں خیر علماء حق سے ہی علم حاصل کرنے میں ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوهُ مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
ترجمہ: لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک وہ اپنے بڑوں، امین لوگوں اور علماء سے علم حاصل کریں گے۔ اور جب وہ اپنے چھوٹوں اور برے لوگوں سے علم حاصل کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔
(الفقیہ والمتفقہ علیہ: ۲/١٥٥، جامع بیان العلم وفضلہ: ١/٦١٦، حدیث نمبر: ١۰٥٧، نصیحۃ اہل الحدیث للخطیب: ٢٩، حدیث نمبر: ۸)
اسی ضمن میں یہ فتنہ بھی آتا ہے کہ علم دین کے حصول میں علماء کو چھوڑ کر صرف اور صرف انٹرنیٹ اور کتابوں پر تکیہ کر لیا گیا ہے۔ اس بیماری میں خاص طور سے امت کے نوجوان مبتلا ہیں۔ جو لوگ صرف کتابوں سے علم حاصل کرتے تھے اسلاف اسے ”صحفی“ کہا کرتے تھے اور ان سے علم دین حاصل کرنے سے منع کرتے تھے۔ چنانچہ سلیمان بن موسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَا تَأْخُذُوا الْعِلْمَ مِنَ الصَّحَفِيِّينَ
ترجمہ: صحفی لوگوں سے علم حاصل مت کرو۔
(الفقیہ والمتفقہ علیہ: ۲/١۹٣)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے اصول ثلاثہ کی شرح میں کتنی خوبصورت بات کہی ہے:
قوله: ثلاث مسائل: التعلم هنا معناه: التلقي عن العلماء والحفظ والفهم والإدراك، هذا هو التعلم، ليس المراد مجرد قراءة أو مطالعة حرة كما يسمونها هذا ليس تعلما إنما التعلم هو: التلقي عن أهل العلم مع حفظ ذلك وفهمه وإدراكه تمامًا، هذا هو التعلم الصحيح، أما مجرد القراءة والمطالعة فإنها لا تكفي في التعلم وإن كانت مطلوبة، وفيها فائدة لكنها لا تكفي، ولا يكفي الاقتصار عليها۔
ولا يجوز التتلمذ على الكتب كما هو الواقع في هذا الوقت، لأن التتلمذ على الكتب خطير جدا يحصل منه مفاسد وتعالم أضر من الجهل، لأن الجاهل يعرف أنه جاهل ويقف عند حده، لكن المتعالم يرى أنه عالم فيحل ما حرم الله، ويحرم ما أحل الله، ويتكلم ويقول على الله بلا علم فالمسألة خطيرة جدا۔
فالعلم لا يؤخذ من الكتب مباشرة إنما الكتب وسائل، أما حقيقة العلم فإنها تؤخذ عن العلماء جيلًا بعد جيل والكتب إنما هي وسائل لطلب العلم۔
ترجمہ: شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا قول: تین مسائل (یعنی اللہ ﷻ کی معرفت، رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور دین اسلام کی معرفت) یہاں تعلم (علم حاصل کرنے) سے مراد علماء کرام سے علم حاصل کرنا، اسے حفظ کرنا، اس کا فہم و ادراک حاصل کرنا ہے۔یہی تعلیم ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ محض پڑھائی یا جس طرح نام دیا جاتا ہے ’’آزادانہ مطالعہ‘‘ (Self-studies) کیا جائے، یہ تعلم نہیں بلکہ تعلم تو یہ ہے کہ علماء کرام سے (علم) حاصل کیا جائے اس کے حفظ، فہم اور مکمل ادراک کے ساتھ، یہ ہے صحیح معنوں میں علم حاصل کرنا، جبکہ صرف خود کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا اگرچہ مطلوب تو ہے مگر تعلم کے لئے کافی نہیں، اس میں فائدہ بھی ہے مگر یہ کفایت نہیں کرتا اور اس پر اقتصار کرنا کافی نہیں۔ کتابوں کا تلمذ اور شاگردی اختیار کرنا جائز نہیں جیسا کہ لوگوں کی موجودہ حالت ہے، کیونکہ کتابوں کا تلمذ اختیار کرنا بہت خطرناک ہے جس سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعالم تو جہل سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ جاہل جانتا ہے کہ وہ جاہل ہے لہذا وہ اپنی حد پر رک جاتا ہے، لیکن المتعالم (علم کا دعویدار) سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے لہذا وہ اللہ ﷻ کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال قرار دیتا ہے اور اللہ ﷻ کے بارے میں بغیر علم کے بولتا اور کلام کرتا ہے لہذا یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے۔ چنانچہ علم کتابوں سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ کتابیں تو وسیلہ ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں علم تو علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے، اور کتابیں تو علم حاصل کرنے کے وسائل میں سے ہیں۔
(شرح الاصول الثلاثۃ: ٣١-٣۲)
(٥) غیر عالم دعاۃ کا تسلط اور غلبہ:
نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
ترجمہ: اللہ ﷻ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے۔ لہذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: ١۰۰)
آج کل رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صادق آرہی ہے۔ لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتا کر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرتے ہوئے وقت کا علامہ بننے کے پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ انھیں عوام کی بدولت یہ منبر و محراب اور کانفرنسوں وغیرہ میں اپنا تسلط قائم کرنے لگے ہیں۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانان ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، لہذا آپ کو سوشل میڈیا پر خاص طور سے نام نہاد مبلغین و دعاۃ اور محققین و مفتیان کے القاب کے مصداق افراد مل جائیں گے جو بزعم خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لکچر سن لئے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز بناتا ہے اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا کوئی محقق دوراں بنتے ہوئے احادیث کی صحت و ضعف پر کلام کرتا ہے تو کوئی منسوخ جیسی احادیث کو بیان کر کے ان سے مسائل کا استنباط کرتا نظر آتا ہے۔ یہ دقیق مسائل ہوں یا غیر دقیق سب میں اپنی رائے دینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب تک دن میں دو چار فتوے نہ دے لیں اور مناظرے نہ کر لیں ان کو سکون نہیں ملتا۔ اتنا ہی نہیں مناظرہ کے نام پر گالی گلوچ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے نام پر نوجوان لڑکیوں سے ہنسی و دل لگی کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے قدم یہیں نہیں رکتے بلکہ وہ دوسروں کے مقالات و مضامین اور تحقیقات کو چرا کر اپنے بلاگس، ویب سائٹس اور گروپس میں اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کی واہ واہی بٹورتے ہیں۔ یہ علماء کی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کو شیئر کرنے میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالم کا لیکچر بھی شیئر کرتے ہیں تو خود کا یوٹیوب چینل بنا کر اس میں اپلوڈ کر کے شیئر کرتے ہیں۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے قصّاص کی جو صفات بیان کی تھیں وہ ان کے اندر موجود نظر آتی ہیں۔ علامہ رحمہ اللہ نے فرمایا تھا:
وأكبر أَسبَابه أَنه قد يعاني هَذِه الصِّنَاعَة جهال بِالنَّقْلِ يَقُولُونَ مَا وجدوه مَكْتُوبًا وَلَا يعلمُونَ الصدْق من الْكَذِب فهم يبيعون على سوق الْوَقْت وَاتفقَ أَنهم يخاطبون الْجُهَّال من الْعَوام الَّذين هم فِي عداد الْبَهَائِم فَلَا يُنكرُونَ مَا يَقُولُونَ وَيخرجُونَ فَيَقُولُونَ قَالَ الْعَالم فالعالم عِنْد الْعَوام من صعد الْمِنْبَر
ترجمہ: اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس فن میں ان لوگوں نے دخل اندازی کی جو نقلی دلائل سے عاری و جاہل ہوتے ہیں۔ جو لکھا ہوا پاتے ہیں اسی کو یہ کہتے ہیں۔ صدق و کذب کی معرفت کی کسوٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ سوق وقت میں دینی خدمت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور (لوگوں کا) اتفاق ہے کہ یہ عام طور پر عوام میں سے ایسے جاہلوں کو مخاطب کرتے ہیں، جو چوپایوں کے قائم مقام ہوتے ہیں لہذا وہ ان کی غلطیوں پر نکیر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے نکلتے ہیں کہ عالم نے کہا۔ پس عوام کے نزدیک وہی عالم ہے جو منبر (اسٹیج) پر چڑھ گیا۔
(تحذیر الخواص للسیوطی: ۲٧٧-۲٧۸)
درحقیقت یہ وہی فتنہ ہے جسے ربیعہ بن ابو عبد الرحمان رحمہ اللہ نے امر عظیم قرار دیا تھا اور آنسو بہائے تھے:
قَالَ مَالِكٌ: أَخْبَرَنِيْ رَجُلٌ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي، فَقَالَ لَهُ: مَا يُبْكِيكَ؟ وَارْتَاعَ لِبُكَائِهِ فَقَالَ لَهُ: أَمُصِيبَةٌ دَخَلَتْ عَلَيْكَ؟ فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِ اسْتُفْتِيَ مَنْ لَا عِلْمَ لَهُ وَظَهَرَ فِي الْإِسْلَامِ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قَالَ رَبِيعَةُ: وَلَبَعْضُ مَنْ يُفْتِي هَا هُنَا أَحَقُّ بِالسَّجْنِ مِنَ السُّرَّاقٌِ
ترجمہ: مالک نے کہا کہ: مجھے ایک شخص نے خبر دی ہے، وہ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس آیا تو اس نے ان کو روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے رلایا؟ اور وہ ان کے رونے کی وجہ سے گھبرا گیا، لہذا اس نے ربیعہ رحمہ اللہ سے کہا کہ کیا کوئی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں! لیکن اس شخص سے فتوی پوچھا جارہا ہے جس کے پاس علم نہیں اور اسلام میں امر عظیم ظاہر ہو چکا ہے۔ ربیعہ رحمہ اللہ نے مزید فرمایا کہ یہاں بعض فتوی دینے والے ایسے ہیں جو چوروں کی بنسبت جیل کے زیادہ حقدار ہیں۔
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: ۲/٣۲٤، المعرفۃ والتاریخ: ١/٦٧۰، جامع بیان العلم و فضلہ: ٢/١۲۲٥، حدیث نمبر: ۲٤١۰ واللفظ لہ)
(٦) دین بیزاری:
سوشل میڈیا کے اس دور میں آزادی کا جو نعرہ بلند کیا گیا ہے لوگ اس سے اس قدر متاثر ہو گئے ہیں کہ دین پر عمل کو پابندی سمجھنے لگے ہیں، لہذا آئے دن سوشل میڈیا پر دین بیزاری کی نت نئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اسی دین بیزاری کی ہی بنا پر علماء بیزاری وجود میں آئی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہلک وبا کے علاج کا سامان کیا جائے۔ علماء کے مقام و مرتبہ اور ان پر طعن و تشنیع اور توہین کے گناہ کی سنگینی کو سمجھا جائے۔ معاشرہ پر مرتب ہونے والے برے اثرات کو زائل کرنے کی تدبیر کی جائے اور لوگوں کے دلوں میں علماء حق کے مقام اور ان کی عظمت کو راسخ کیا جائے۔ لوگوں کے مابین ان کی غلطیوں کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ علماء بھی انسان ہی ہوتے ہیں بشری تقاضا کی بنا پر ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ غلطی کی صورت میں ان کے لئے ایک اجر کی توقع کی جائے اور ان پر اعتماد کو برقرار رکھا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے لئے عذر تلاش کیا جائے اور ان سے حسن ظن رکھا جائے۔ اسی طرح علماء کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا مقام سمجھیں اور دعوت حق کا کام کریں۔ جہاں غلطی ہو جائے اپنی اصلاح کریں اور عوام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔
No comments:
Post a Comment