Saturday, May 6, 2017

آزادی نسواں

آزادی نسواں

اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورت کو احترام و عزت کا تاج پہنایا. ورنہ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں عورت کو منحوسیت کی علامت سمجھا جاتا تھا. اور یہ جائیدادِ منقولہ کی طرح خریدی اور بیچی جاتی تھی. آج بھی بہت سے غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے. عورت کی جسم کا ہر حصّہ تشہیر، اخبارات ،ٹی وی، بینرز کی زینت بنا دیا گیا ہے. آج حقوقِ نسواں کی موڈرن علم بردار تنظیمیں عورت کی آزادی کے نام پر بے حیائی اور جہالت کے بینرز اٹھائے پھرتی ہیں. عورت کی آزادی کو بس گھر سے نکلنا اور آدھے لباس پہن کر اپنی نمائش کرنے تک محدود کرنے والی یہ نام نہاد تنظیمیں اصل میں عورتوں کی تقدس اور اسلام میں انکو مقام و مرتبے سے غافل ہیں.
ضرورت ہے کہ عورت کو اسکے بلند روحانی اور اعلی اخلاقی مقام سے آگاہ کیا جائے. جو صرف اور صرف اسلام ہی عورت کو دے سکتا ہے. 

ایک تلخ حقیقت!

ایک تلخ حقیقت!

جب کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ کہیں تنہائی میں ملتی ہے تو لڑکے کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ ”جو لڑکی اپنے ماں، باپ اور خاندان کی عزت کی پاسداری نہیں کر سکتی حالانکہ ان کے ساتھ اسکا خون کا رشتہ ہے، تو وہ میری عزت کیا کرے گی“.
لڑکے بھی ایسی لڑکی کو ”ڈیٹ“ پر لے جاتے تو ضرور ہیں لیکن جب شادی کی بات آتی ہے تو ایسی لڑکیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں.

صحیح مسلم کے حوالے سے شیئر کی جانے والی ایک باطل روایت

صحیح مسلم کے حوالہ سے یہ روایت سوشل میڈیا پر کثرت سے شیئر کی جاتی ہے کہ ”جس گھر کے دروازے  رشتہ داروں کے لئے بند رہیں، جس گھر میں اذان کے وقت خاموشی نہ ہو، جس گھر یا جگہ پر مکڑی کے جالے لگے ہوں، جس گھر میں صبح کی نماز نہ پڑھی جاتی ہو، وہاں رزق کی تنگی اور بے برکتی کو کوئی نہیں روک سکتا.“
حالانکہ یہ روایت صحیح مسلم میں قطعا نہیں ہے نہ ہی حدیث کی کسی اور کتاب میں صحیح سند سے یہ روایت موجود ہے۔ بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے. اور یاد رکھیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے. 

یہاں چند باتوں کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں:

پہلی بات: رشتہ داروں سے قطع تعلق پر سخت وعیدیں آئی ہیں. محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے اس تعلق ایک مفصل مضمون تحریر کیا ہے  (فجزاہ اللہ خیرا) جسکا مطالعہ مفید رہے گا.

دوسری بات: اذان کے وقت ضرورتا بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلَى الْفِطْرَةِ ". ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ "، فَنَظَرُوا، فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دشمن پر) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے، (ایسا ہوا کہ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: الله أكبر الله أكبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فطرت (اسلام) پر ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو آگ سے نکل گیا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
(صحیح مسلم: 382)

خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اذان کے وقت بات کرنا ثابت ہے:
عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيِّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُمْ كَانُوا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُصَلُّونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَخْرُجَ عُمَرُ، فَإِذَا خَرَجَ عُمَرُ، وَجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَالَ ثَعْلَبَةُ : جَلَسْنَا نَتَحَدَّثُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ وَقَامَ عُمَرُ يَخْطُبُ أَنْصَتْنَا، فَلَمْ يَتَكَلَّمْ مِنَّا أَحَدٌ.
ترجمہ: ثعلبہ بن ابی مالک قرظی سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نکلتے. جب عمر نکلتے اور منبر پر بیٹھ جاتے مؤذن اذان کہتے (ثعلبہ کہتے ہیں) ہم بیٹھے باتیں کیا کرتے. جب مؤذن چپ ہو جاتے اور عمر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگتے تو ہم خاموش ہو جاتے لہذا ہم میں سے کوئی بات نہیں کرتا.
(مؤطا امام مالک، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب، رقم الحدیث: 274)
شیخ سلیم ہلالی کہتے ہیں کہ اسکی سند صحیح ہے. اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس کو صحیح کہا ہے. 
اس تعلق سے بھی محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے. اسکا مطالعہ بھی مفید ہوگا.

تیسری بات: گھر میں مکڑی کا جالا لگا ہو تو دیکھنے میں برا محسوس ہوتا ہے لہذا اسکو صاف کر لیا جاۓ تو اچھا ہے. صفائی اچھی چیز ہے. مسلمان کے کپڑے بھی صاف ہونے چاہیے اس کا گھر بھی صاف ہونا چاہیے لیکن اگر جالا لگا ہوا ہو تو اس سے بے برکتی وغیرہ کی بات صحیح نہیں ہے.

چوتھی بات: نماز کی بہت زیادہ اہمیت  ہے. خصوصی طور پر نماز فجر کی بھی اہمیت وارد ہوئی ہے. ساتھ ساتھ نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں. مزید خصوصی طور پر نماز فجر کے ترک کرنے پر بھی وعیدیں آئی ہیں. لہذا ایک مسلمان کو نماز کا پابند رہنا چاہئے اور اسے یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ صبح کے وقت میں اس امت کے لئے برکت ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرمائی ہے. لہذا اگر کوئی سوتا رہ جاتا ہے تو وہ واقعی برکت سے محروم ہو جاتا ہے.

خلاصہ کلام یہ کہ صحیح مسلم کے حوالے سے جو روایت کثرت سے شیئر کی جا رہی ہے اسکی کوئی اصل نہیں ہے. لہذا اسکی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے.

کتبہ: عمر اثری

Friday, May 5, 2017

قرآن و حدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا

تحریر: عمر اثری (ابن اثر)

ہمارے معاشرے میں بہت سارے فتنے عام ہیں. انہیں میں سے ایک اہم فتنہ منکرین حدیث کا بھی ہے.
منکرین حدیث میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مطلقا احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں. کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عقل پرست ہوتے ہیں اور جو احادیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں انکا انکار کر دیتے ہیں. مزید کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن واحادیث میں عمدا تعارض پیدا کرنے اور اسکی بنا پر احادیث کا انکار کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں.
حالانکہ قرآن وحدیث کے نصوص میں حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے. آئیے اس بات کو ہم دلیل سے سمجھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةًسِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَاخَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ". ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ". فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح بخاری: 886)

اِس حدیث میں غور کریں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی جوڑی کو پہننے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو. اسکے بعد خود ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے پاس اسی جیسا جوڑا بھیجا. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہننے سے منع فرمایا اور پھر اسکے بعد خود اسی طرح کا جوڑا میرے پاس بھیجا ہے. آخر ماجرہ کیا ہے؟
ذرا سوچیں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟
کیا انہوں نے سرے سے نص کا ہی رد کر دیا؟؟؟
کیا انہوں نے اپنی عقل سے اس میں کچھ فیصلہ کیا؟؟؟
نہیں، بلکہ وہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو ریشمی جوڑے کو پہننے سے منع فرمایا تھا اور اب آپ خود میرے پاس بھیج رہے ہیں؟؟؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے تمہیں یہ جوڑا اِس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو.
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض کی مثال تھی. اب آپ غور کریں. کیا واقعی تعارض تھا؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں. حقیقت میں کوئی تعارض نہیں تھا.

معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.

قرآن اور حدیث میں ظاہری تعارض کی مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } { فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ ".
ترجمہ: جس شخص سے بھی قیامت کے  دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا‏» کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔
(صحیح بخاری: 6537)

کتنی واضح اور صریح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا. ہاں ظاہری طور پر تعارض نظر آتا ہے.
لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ قرآن وحدیث میں زبردستی تعارض پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اس ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث کو ہی رد کر دیتے ہیں. آخر یہ کس قدر جہالت ہے!....
غور کریں کیا واقعی تعارض تھا؟

اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے. نہ کہ اپنی عقل کا غلط استمعال کرتے ہوئے حدیث کا رد کرنا چاہیے.
ذرا سوچئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا رویہ اپنایا؟
جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض نظر آ رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یقیناً مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی ہو رہی ہوگی. کیونکہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہو سکتا. اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا. اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو جواب دے کر سمجھا دیا.

ہمارا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے. جب ہمیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس طرح قرآن و حدیث میں باہم تعارض نظر آئے تو علماء کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسکی تشریح اور وضاحت پوچھنی چاہیے.


یہ بے حیائی کیوں؟

یہ بے حیائی کیوں؟

تحریر: عمر اثری 

نئی تہذیب کی ہوا پوروپی ممالک کے طبقہ نسواں سے ہوتے ہوئے بقیہ ممالک کی طرف روا دواں ہے. فیشن پرستی اور نام نہاد آزادی نے طبقہ نسواں کو تباہی اور بربای کے دلدل میں لا گسیٹا ہے. عفت و عصمت شرم و حیا آج یورپ کی گلیوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی. بچی کچی تھوڑی سی شرم و حیا مسلم ممالک کی گلیوں، کوچوں، محلوں اور بعض مکانوں میں نظر آ جاتی ہے.
اب تو قلم حیا کے سبب اشک ندامت بہاتا ہے. زبان لڑکھڑاتی ہے اور ذہن برجستہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ شرم و حیا عفت و عصمت کو ہم مسلم ممالک کی گلیوں اور کوچوں میں بھی نہ پائیں گے.
آج نوجوان غیر محرم لڑکیوں میں آتے جاتے ہی نہیں بلکہ ہنسی اور دل لگی بھی کرتے ہیں.
آج عورتوں کی نظریں اٹھنے لگیں حالانکہ رب ذو الجلال نے انکو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا تھا:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
(سورۃ النور: 31)

سر سے آنچل ہٹنے لگے. بدن کھلنے لگے حالانکہ رب ذوالجلال نے وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ (اور اپنے  گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں. سورۃ النور: 31) کہ کر انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈالے رہیں.
پیاری بہنو! تم خود سوچو آخر تمہیں اس قدر احتیاط برتنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ تم پر ہی تو آنے والی نسل کی حفاظت اور پرورش کا دار و مدار ہے. کیونکہ ماں ہی کی گود بچے کا سب سے پہلا مدرسہ ہوتا ہے. تم میں ذرہ برابر بھی کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو نسلیں برباد ہو جائیں گی. تمہارے اخلاق تمہاری عادتیں تمہاری اولاد میں اثر انداز ہونگی. تم جس روش پر انکی پرورش کروگی وہ اسی روش پر چلیں گی. جس بھی حال میں وہ تم کو دیکھیں گی اسی کو وہ اپنائیں گی.
سنو! اور اچھی طرح سے یہ بات ذہن نشین کر لو کہ عفت و عصمت جیسی قیمتی چیز اس پوری کائنات میں نہیں ہے. عفت و عصمت ہے تو سب کچھ ہے. عفت و عصمت نہیں تو کچھ بھی نہیں.
لیکن آج تم کالجوں، پارکوں، شاپنگ مالوں اور سنیما گھروں میں آزادانہ لڑکوں کے ساتھ گھومتی ہو. آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے؟
تم لڑکوں کے ساتھ خلوت میں جانے سے بھی نہیں شرماتی ہو کیا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں معلوم؟
لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ
کوئی مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے
(صحیح البخاری: 3006)

سنو سنو! اور اچھی طرح سمجھ لو تم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر کے انھیں کچھ بھی نقصان نہ پہونچا سکو گی. نقصان آخر تمہارا ہی ہے.
تم میک اپ کر کے زیب و زینت کے ساتھ جاہلیت کی روش اختیار کر کے بازاروں میں گھومتی ہو اور وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو. سورۃ الاحزاب: 33) کی صریح مخالفت کرتی ہو. آخر یہ کونسا انصاف کر رہی ہو؟؟؟
اب تو ہوش کے ناخن لو اور خواب غفلت سے پیدار ہو جاؤ اور اپنی زندگی کا محاسبہ کرو. اگر واقعتا تمہاری زندگی اسلامی زندگی ہے تو رب العزت کا شکر بجا لاؤ اور اگر اسلامی زندگی نہیں ہے تو رب کریم سے توبہ و استغفار کرو اور گناہوں سے باز آ جاؤ.

وضو کے بعد سورہ قدر پڑھنا کیسا ہے


وضو كے بعد سورہ قدر پڑھنے کی سنت میں کوئی اصل نہیں ہے ، کنز العمال میں ایک روایت ہے:
من قرأ في أثر وضوئه إنا أنزلناه في ليلة القدر كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا يحشره الله محشر الأنبياء.
ترجمہ: جس نے وضو كے بعد ایک بار سورہ قدر پڑھی تو وہ صدیقین میں سے ہے، اور جس نے دو بار پڑھی تو اسکا شمار شہداء میں ہوگا، اور جس نے تِین بار پڑھی تو اللہ تعالی میدان حشر میں اسکو انبیاء كے ساتھ رکھے گا.

کنزالعمال کے محقق بكري حياني لکھتے ہیں:
لم يثبت حديث صحيح في قراءة سورة القدر عقب الوضوء
ترجمہ: وضو كے بعد سورہ قدر پڑھنے  کی کوئی بھی صحیح حدیث موجود نہیں.

عجلونی ”کشف الخفاء (2566)“ میں کہتے ہیں: 
لا أصل له، وكذا الأحاديث الواردة في الذكر عند كل عضو فباطلة. انتهى.
ترجمہ: اسکی کوئی اصل نہیں ہے، اسی  طرح ہر عضو (کو دھوتے) وقت ذکر كے سلسلے میں وارد احادیث باطل ہیں. انتہی.

اور شیخ البانی ”سلسلہ الضعیفہ“ میں لکھتے ہیں:
قراءة سورة إنا أنزلناه عقب الوضوء لا أصل له. انتهى.
ترجمہ: وضو كے بعد سورہ «إنا أنزلناه» (یعنی سورہ قدر) پڑھنے کی کوئی اصل نہیں. انتہی.
فتوی لنک

کیا سب سے پہلے دل کا دورہ سعد رضی اللہ عنہ کو آیا؟

کیا سب سے پہلے دل کا دورہ سعد رضی اللہ عنہ کو آیا؟


سوال: اسلام میں سب سے پہلے دل کا دورہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو آیا. ہمارے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا کہ عجوہ کھجور گٹھلی سمیت پیس کر کھاؤ. اسکے بعد تمام زندگی ان کو دل کی تکلیف نہیں ہوئی. 
طریقہ: عجوہ کھجور گٹھلی سمیت پیس کر ایک مہینے تک استعمال کریں.
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، تاکہ دل كے مریض اس سے فائدہ اٹھا سکیں.
کیا یہ پوسٹ صحیح ہے؟؟؟


جواب: امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے واسطے سے یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنْ سَعْدٍ قَالَ مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلَى فُؤَادِي فَقَالَ إِنَّكَ رَجُلٌ مَفْئُودٌ ائْتِ الْحَارِثَ بْنَ كَلَدَةَ أَخَا ثَقِيفٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ يَتَطَبَّبُ فَلْيَأْخُذْ سَبْعَ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلْيَجَأْهُنَّ بِنَوَاهُنَّ ثُمَّ لِيَلُدَّكَ بِهِنَّ
ترجمہ: سیدنا سعد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں بہت سخت بیمار ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میری چھاتی کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل میں محسوس کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم دل کے مریض ہو‘ بنو ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ‘ وہ طبابت کرتا ہے‘ اسے چاہیئے کہ مدینہ کی عجوہ کھجوروں میں سے سات کھجوریں لے کر انہیں گٹھلیوں سمیت کوٹ لے اور پھر تمہیں کھلا دے۔“
(ابو داؤد : 3875) 
حکم : ضعیف
یہ روایت اگرچہ سندًا ضعیف ہے لیکن  عجوہ کھجور میں شفاء ہونے کے بارے میں متعدد صحیح احادیث موجود ہیں ان میں سے حضرت عائشہ کی  روایت بھی ہے جو صحیح مسلم (الشربہ حدیث: 2048) میں مروی ہے۔ دوسری زہر اور جادو سے بچاؤ کے لئے اگلی حدیث میں عجوہ کا ذکر ہے جو صحیحین میں مروی ہے۔ تاہم ادویہ تیار کرنا اور مناسب خوراکوں سے  استعمال کرانا مہارت کا کام ہے، اسی لیئے حاذق طبیب کی طرف مراجعت ضروری ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف ابو داؤد“ میں ضعیف کہا ہے. 
جبکہ کچھ محدثین نے اس کی سند کو قوی کہا ہے. ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت دل كے مریض كے علاج کا ذکر کیا“ كے تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اور شیخ شعیب ارنؤوط نے اسکو قوی کہا ہے. وہ (ابن قیم رحمہ اللہ) اسکے بعد ذکر کرتے ہیں”اور کھجوروں کا بہترین اثر ہوتا ہے اس بیماری پر خاص طور سے جب کھجور مدینہ کی ہو خصوصا عجوہ کھجور.“

کسی بھی حالت میں، اوپر جو بات سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ كے بارے میں ذکر کی گئی ہے، جو اپنی بیماری کی شکایت کرتے ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ شکایت دل كے دورے کی تھی یا کسی اور بیماری کی اور پھر ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ تجویز جو حدیث میں بیان ہوئی ہے ہر اس شخص كے لیے ہے جو دل کی بیماری کی شکایت کرے، کیونکہ حدیث كے سیاق و سباق میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو یہ بتاتا ہو.
تاہم، اگر ثبوت ہے کہ عجوہ کھجوریں فائدہ مند ہیں اس طرح کی بیماری كے لیے تو پِھر اس کا استعمال جائز ہوگا. قطعِ نظر اس کے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اصل یہی ہے کہ علاج جائز ہے جب تک کوئی ایسا ثبوت نہ مل جائے جو اسکو ناجائز قرار دیتا ہو.
فتوی لنک
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب سے پہلے دل کا دورہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو آیا تھا. کیونکہ حدیث میں دل کے دورے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب

پوری زندگی کے مسائل کا حل صرف ایک حدیث میں

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ. 
روایت کا متن:
عن خالد بن الوليد رضي الله عنه قال : جاء أعربي إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم
فقال : يا رسول الله : جئت أسألك عما يغنيني في الدنيا والآخرة .

فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم سل عما بدا لك .

فقال : أيرد ان أكون أعلم الناس

فقال صلي الله عليه وسلم : أتق الله تكن أعلم الناس

فقال : أريد أن أكون أغني الناس

فقال صلي الله علي وسلم : كن قانعاً تكن أغني الناس

قال: أحب أن أكون أعدل الناس

فقال صلي الله عليه وسلم : أحب للناس ما تحب لنفسك تكن أعدل الناس

قال : أحب أن اكون خير الناس

فقال صلي الله عليه وسلم : كن نافعاً للناس تكن خير الناس

قال : أحب أن أكون أخص الناس إلي الله

فقال صلي الله عليه وسلم :- أكثر من ذكر الله تكن أخص الناس إلي الله

قال: أحب أن أكون من المحسنين

فقال صلي الله عليه وسلم : أعبد الله كأنك تراه وإن لم تكن تراه فإنه يراك .

قال : أحب أن أكون من المطيعين

فقال صلي الله عليه وسلم : أد فرائض الله تكون من المطيعين

قال : أحب أن ألقي الله نقياً من الذنوب

فقال صلي الله عليه وسلم : أغتسل من الجنابة متطهراً تلقي الله نقياً من الذنوب

قال : أحب أن أحشر يوم القيامة في النور

فقال صلي الله عليه وسلم : لا تظلم أحد تحشر يوم القيامة في النور

قال : أحب أن يرحمني ربي يوم القيامة

فقال صلي الله عليه وسلم : أرحم نفس وأرحم عباده يرحمك ربك يوم القيامة

قال : أحب أن تقل ذنوبي

فقال صلي الله عليه وسلم : أكثر من الأستغفار تقل ذنوبك

قال : أحب أن أكون أكرم الناس

فقال صلي الله عليه وسلم : لا تشكو من أمرك شيئاً إلي الخلق تكن أكرم الناس

قال : أحب أن أكون أقوي الناس

فقال صلي الله عليه وسلم : توكل علي الله تكن أقوي الناس

قال : أحب ان يوسع الله علي في الرزق

فقال صلي الله عليه وسلم : دم علي الطهارة يوسع الله عليك في الرزق

قال : أحب أن أكون من أحباب الله ورسوله

فقال صلي الله عليه وسلم :أحب ما أحبه الله ورسوله تكن من أحبابهم

قال : أحب أن أكون أمناً من سخط الله يوم القيامة

فقال صلي الله عليه وسلم : لا تغضب علي أحد من خلق الله تكن آمناً من سخط الله يوم القيامة

قال : أحب أن تستجاب دعوتي

فقال صلي الله عليه وسلم : أجتنب أكل الحرام تستجاب دعوتك

قال : أحب أن يسترني ربي يوم القيامة

فقال صلي الله عليه وسلم : أستر عيوب أخوانك يسترك الله يوم القيامة

قال : ماالذي ينجي من الذنوب ؟ أو قال من الخطايا ؟

فقال صلي الله عليه وسلم : الدموع والخضوع والأمراض

قال : إي حسنة أعظم عند الله تعالي

فقال صلي الله عليه وسلم : حسن الخلق والتواضع والصبر علي البلاء

قال : أي سيئة أعظم عند الله تعالي ؟

فقال صلي الله عليه وسلم : سوء الخلق والشح المانع

قال: ما الذي يسكن غضب الرب في الدنيا والآخرة ؟

فقال صلي الله عليه وسلم : الصدقة الخفية وصلة الرحم

قال : ما الذي يطفيء نار جهنم يوم القيامة ؟

فقال صلي الله عليه وسلم : الصبر في الدنيا علي البلاء والمصائب


قال الإمام المستغفري ما رأيت حديثاً أعظم وأشمل لمحاسن الدين وأنفع من هذا الحديث أجمع فأوعي
رواه الإمام إبن حنبل .


مذکوره بالا حدیث (مسند الإمام أحمد) میں نہیں ہے، اور نہ حدیث کی دیگر معروف کتابوں سنن ومسانيد وغیره میں ہے، بلکہ صرف (كنز العمال) میں ہے اور وہاں بھی بلا سند مذکور ہے. لہذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں. 

واللہ اعلم بالصواب.