Saturday, July 11, 2020

کیا صرف شوہر کا چھوٹا بھائی ہی غیر محرم ہے؟

کیا صرف شوہر کا چھوٹا بھائی ہی غیر محرم ہے؟


سوال: بخاری کی روایت ہے جس میں الله کے نبی ﷺ نے فرمایا دیور تو موت ہے۔۔۔

مجھے پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف چھوٹے بھائی کو ہی دیور کہا جاتا ہے تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ شوہر کا جو بڑا بھائی ہے وہ غیر محرم نہیں ہے؟

وضاحت مطلوب ہے ۔۔۔

الله آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی صحت اور علم میں ترقی عطا فرمائے۔۔۔

جواب: سب سے پہلے حدیث دیکھ لیتے ہیں: 
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ: الْمَوْتُ
”عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں جانے سے بچتے رہو، اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیور یا (جیٹھ) تو موت ہے۔“
(صحیح بخاری: 5232، صحیح مسلم: 2172)

اس حدیث میں موجود لفظ «الْحَمْوُ» كے متعلق اس حدیث كے راوی لیث بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
الْحَمْوُ أَخُ الزَّوْجِ وَمَا أَشْبَهَهُ مِنْ أَقَارِبِ الزَّوْجِ ابْنُ الْعَمِّ وَنَحْوُهُ
”حمو «الْحَمْوُ» خاوند کا بھائی (دیور/جیٹھ) ہے یا خاوند كے رشتہ داروں میں اس جیسا رشتہ رکھنے والا، (مثال كے طور پر) اس کے چچا کا لڑکا وغیرہ۔“
(صحیح مسلم: 2172)

اور امام نووی رحمہ اللہ «الْحَمْوُ» کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
اتَّفَقَ أَهْلُ اللُّغَةِ عَلَى أَنَّ الاحماء أقارب زوج المرأة كأبيه وعمه وأخيه وابن أخيه وابن عَمِّهِ وَنَحْوِهِمْ وَالْأُخْتَانِ أَقَارِبُ زَوْجَةِ الرَّجُلِ وَالْأَصْهَارُ يَقَعُ عَلَى النَّوْعَيْنِ
”اہل لغت اس پر متفق ہیں كے ”الاحماء“ شوہر كے عزیز واقارب کو کہا جاتا ہے مثال كے طور پر اس کا باپ، چچا، بھائی، بھتیجا، چچا کا لڑکا اور جو ان جیسے ہیں۔ اور ”اختان“ سے مراد بیوی كے عزیز واقارب ہیں،  اور ”اصہار“ کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔“

اس كے بعد «الْحَمْوُ: الْمَوْتُ» (دیور موت ہے) کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ فَمَعْنَاهُ ﺃَﻥَّ الْخَوْفَ مِنْهُ أَكْثَرُ مِنْ غَیْرِهِ وَالشَّرُّ یُتَوَقَّعُ مِنْهُ وَالْفِتْنَةُ أَكْثَرُ لِتَمَكُّنِهِ مِنَ الْوُصُولِ إِلَى الْمَرْأَةِ وَالْخَلْوَةِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْكَرَ عَلَیْهِ بِخِلَافِ الأجنبى
والمراد بالحمو هنا أَقَارِبُ الزَّوْجِ غَیْرُ آبَائِهِ وَأَبْنَائِهِ فَأَمَّا الْآبَاءُ والأبناء فمحارم لزوجته تجوزلهم الخلوة بها ولا یوصفون بالموت وانما المراد الأخ وابن الْأَخِ وَالْعَمُّ وَابْنُهُ وَنَحْوُهُمْ ﻣِﻤَّﻦْ ﻟَﻴْﺲَ بِمَحْرَمٍ
وَعَادَةُ النَّاسِ الْمُسَاهَلَةُ فِیهِ وَیَخْلُو بِامْرَأَةِ أَخِیهِ فَهَذَا هُوَ الْمَوْتُ وَهُوَ أَوْلَى بِالْمَنْعِ مِنَ الأجنبی لما ذكرناه فَهَذَا ﺍﻟَّﺬِﻱ ذَكَرْتُهُ هُوَ صَوَابُ مَعْنَى الْحَدِیثِ
”اور نبی ﷺ كے فرمان «الْحَمْوُ: الْمَوْتُ» (دیور موت ہے) کا مطلب یہ ہے كہ دوسروں کی بنسبت اس سے زیادہ خوف ہوتا ہے اور اس کی طرف سے شر کی توقع اور فتنہ زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ اس كے لیے بغیر کسی نکیر كے عورت تک پہنچنا اور اس سے خلوت کرنا ممکن ہوتا ہے، جبکہ اجنبی كے لیے ایسا ممکن نہیں۔ اور یہاں «الْحَمْوُ» سے مراد شوہر كے والد (سسر) اور بیٹوں كے علاوہ باقی عزیز واقارب مرد ہیں، جہاں تک شوہر كے آبا واجداد اور اس كے بیٹوں کا تعلق ہے تو وہ لوگ اس کی بیوی كے لیے محرم ہیں جن سے اس کی خلوت جائز ہے جنہیں موت كے ساتھ متصف نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہاں «الْحَمْوُ» سے مراد شوہر كے بھائی (دیور اور جیٹھ)، بھتیجا، چچا، اور چچا زاد وغیرہ ہیں جو كہ محرم نہیں ہیں۔ اور اس تعلق سے لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ اس میں سستی کرتے ہیں اور دیور بھابی سے خلوت کرتا ہے،   اور یہی موت ہے جو اجنبی کی بنسبت بدرجہ اولی ممنوع ہے، اس کی وجہ ہم نے (اوپر) بیان کر دی ہے، جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے وہی حدیث کا صحیح مطلب ہے۔“

مزید آگے فرماتے ہیں: 
وقال ابن الْأَعْرَابِیِّ هِیَ كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ كَمَا یُقَالُ الْأَسَدُ الْمَوْتُ أَیْ لِقَاؤُهُ مِثْلُ الْمَوْتِ
وَقَالَ القاضی ﻣﻌﻨﺎﻩ الخلوة بالأحماء مؤدیة إِلَى الْفِتْنَةِ وَالْهَلَاكِ فِی الدِّینِ فَجَعَلَهُ كَهَلَاكِ الْمَوْتِ فَوَرَدَ الْكَلَامُ مَوْرِدَ التَّغْلِیظِ
”اور ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ اس کلمہ کو عرب ویسے ہی بولتے ہیں جیسے یہ کہا جائے کہ شیر موت ہے، یعنی شیر سے ملنا ایسے ہی ہے جیسے موت سے ملنا۔
اور قاضی کہتے ہیں: 
اس کا مطلب احماء (دیور، جیٹھ اور شوہر كے رشتہ دار مردوں) كے ساتھ خلوت اختیار کرنا ہے جو فتنہ اور دین کی تباہی کی طرف لے جانے والا ہو، نبی کریم ﷺ نے اسے موت کی ہلاکت کے مثل ہی قرار دیا ہے،  تو یہ کلام سختی اور تغلیظ كے طور پر وارد ہوا ہے۔ 
(دیکھیں: شرح مسلم للنووی) 

خلاصہ کلام یہ ہے كہ «الْحَمْوُ» کا لفظ صرف شوہر كے چھوٹے بھائی (دیور) كے لیے ہی نہیں بلکہ شوہر كے بڑے بھائی (جیٹھ) كے ساتھ ساتھ اسکے دوسرے رشتہ داروں كے لیے بھی مستعمل ہے۔ لہذا شوہر كے والد (سسر) اور بیٹوں كے علاوہ باقی رشتہ داروں سے پردہ کرنا واجب ہے، جیسا كے تفصیل گزر چکی ہے۔
(مزید تفصیل كے لیے موسوعہ فقہیہ کویتیہ دیکھ سکتے ہیں)
واللہ اعلم بالصواب! 

وکتبہ عمر اثری سنابلی

Sunday, June 28, 2020

غم نہ کریں


غم نہ کریں!
شاید یہ بیماری اور پریشانی آپ کے گناہوں کے کفارہ کا سبب ہو!

نبی ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى؛ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا
”مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کانٹا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“
(صحیح بخاری: 5648)

جنت میں موسی علیہ السلام کا ساتھی؟

جنت میں موسی علیہ السلام کا ساتھی؟

تحریر: عمر اثری سنابلی

سوال: مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے ایک بیان میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ اس واقعہ کی تحقیق چاہئے۔ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے:
ایک بار حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا ”جنت میں میرا ہمسایہ کون ہوگا ؟“....اللہ نے فرمایا ”فلاں شہر کا فلاں قصاب جنت میں تیرا ہمسایہ ہوگا“.... حضرت موسی علیہ السلام حیران ہوئے وہ قصاب ایسا کون سا عمل کرتا ہوگا جو اللہ اُسے اتنا بڑا رتبہ عطا فرما رہے ہیں ؟“ .... حضرت موسی علیہ السلام ایک روز اُس شہر میں گئے، قصاب کو تلاش کیا اور دِن بھر خاموشی سے دیکھتے رہے آخر وہ قصاب کون سا ایسا عمل کرتا ہے جس پر اللہ اُسے جنت میں میرا ہمسایہ ہونے کا شرف بخش رہے ہیں، آپؑ نے دیکھا وہ قصاب دن بھر گوشت بیچتا رہا، گوشت کا ایک ٹکڑا اُس نے الگ سے رکھا ہوا تھا، شام ہوئی اُس نے وہ ٹکڑا تھیلے میں ڈالا اور وہاں سے رخصت ہوگیا، آپ اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ وہ قصاب جب اپنے گھر داخل ہونے لگا آپؑ نے اُسے روک لیا اور کہا ”میں آج تمہارا مہمان بننا چاہتا ہوں “....قصاب کو کچھ خبر نہیں تھی آپؑ کون ہیں؟ وہ آپؑ کو اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گیا۔ آپ نے دیکھا اُس قصاب نے گوشت کا وہ ٹکڑا تھیلے سے نکالا، اُسے اچھی طرح صاف کیا، پھر اُسے پکنے کے لیے رکھ دیا۔ جب گوشت پک گیا وہ اُسے گھر کے صحن میں ایک چارپائی پر لیٹی ایک بوڑھی عورت کے پاس لے گیا۔ اُس نے اُس عورت کو بڑے پیار سے چارپائی سے اُٹھایا، پہلے اُسے پانی پلایا پھر گوشت اُسے کھلانا شروع کردیا، بوڑھی عورت گوشت کھا کر فارغ ہوئی اُس نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سُن کر قصاب مسکرادیا، اُس کے بعد اُس نے اُس بوڑھی عورت کا بستر وغیرہ ٹھیک کیا اور اُسے لیٹا دیا۔ اُس نے حضرت موسیٰؑ کو کھانا کھلایا ، کھانا کھانے کے بعد حضرت موسی علیہ السلام نے اُس سے پوچھا چارپائی پر لیٹی ہوئی بوڑھی عورت کون ہے اور کھانا کھانے کے بعد اُس نے تمہارے کان میں کیا کہا ہے ؟“.... قصاب بولا ”وہ میری ماں ہے ، بہت سادہ عورت ہے، میں جب بھی اُسے کھانا کھلاتا ہوں وہ میرے کان میں یہ دعا دیتی ہے ”یا اللہ میرے بیٹے کو جنت میں اپنے نبی موسیٰ ؑکا ہمسایہ بنانا “.... جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ کہاں میں معمولی قصاب اور کہاں حضرت موسی علیہ السلام....اللہ کے برگزیدہ نبی ....اِس پر حضرت موسی علیہ السلام نے قصاب کو بتایا ” میں موسی علیہ السلام ہوں اور مجھے اللہ نے بتایا ہے فلاں قصاب جنت میں تمہارا ہمسایہ ہوگا، اِس لیے تم سے ملنے چلے آیا “ ....

جواب: یہ واقعہ من گھڑت ہے۔ حدیث کی کتب میں اسکی کوئی بھی ضعیف تو کجا موضوع سند تک موجود نہیں ہے۔ اس قصہ کو یعقوب بن سید علی نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں بلا سند روایت کیا ہے۔

مشہور ویب سائٹ الدرر السنیہ میں ہے:
ليس لها أصل، وهي من قصص الوعاظ
”اس قصہ کی کوئی اصل نہیں ہے، یہ واعظین کی حکایات میں سے ہے۔“

اور اسلام ویب پر موجود ایک فتوی میں ہے:
فإنا لا نعلم لها أصلا
”ہمیں اس کی اصل نہیں معلوم۔“
(رقم الفتوى: 76782)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے۔ لہذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے، البتہ ماں کی دعا قبول ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

Saturday, February 15, 2020

”پب جی“ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں


پب جی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

تحریر: عمر اثری سنابلی  
متعلم: کلیۃ  الحدیث، بنگلور

وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تیزرفتاری سے گزرتا ہے اور گزرنے کے بعد واپس نہیں آتا۔ اسی لئے قرآن وحدیث میں جابجا وقت کی اہمیت ومنزلت کو بیان کیا گیا ہے اور اسکے ضیاع پر تنبیہ کی گئی ہے۔ فرمان الہی ہے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
”کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔“
(سورۃ المؤمنون: 115)
اور فرمان نبوی ہے:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فارغ البالی کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔“
(المستدرک للامام حاکم ط دار الحرمین: 4/447، رقم الحدیث: 7927۔ مسند شہاب قضاعی ط الرسالۃ: 1/425، رقم الحدیث: 729۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔ دیکھیں: صحيح الترغيب والترهيب ط مکتبۃ المعارف: 3/311، رقم الحدیث: 3355)
ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ ہمیشہ نفع بخش کاموں میں مشغول رہنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ
”جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس کے حریص بنو۔“
(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2664)
 یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ انسان بے کار بیٹھا رہے، نہ وہ دین کا کام کرے اور نہ دنیا کا اور بے مقصد زندگی گزارے۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنِّي لَأَبْغَضُ الرَّجُلَ أَنْ أَرَاهُ فَارِغًا لَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنْ عَمَلِ الدُّنْيَا وَلَا عَمَلِ الْآخِرَةِ
”میں ایسے شخص کو ناپسند کرتا ہوں جو فارغ بیٹھا رہے نہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرے اور نہ آخرت کے لئے۔“
(الزھد للوکیع ط مکتبۃ الدار، صفحہ نمبر: 2/652، رقم الحدیث: 369۔ المصنف لابن ابی شیبۃ ط دار کنوز، رقم الحدیث: 37282۔ الزھد لاحمد ط دار الکتب العلمیۃ، صفحہ نمبر: 131 رقم الحدیث: 874۔ اس اثر کی سند ضعیف ہے جیسا کہ شیخ عبد الرحمن الفریوائی حفظہ اللہ نے ”الزھد للوکیع“ کی تعلیق میں اس پر مفصل گفتگو کی ہے اور اسکے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔ واللہ اعلم)

لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت خصوصا نوجوانان ملت فرصت وفراغت کے قیمتی لمحات کو نہ صرف ضائع کر رہے ہیں بلکہ ان لمحات میں شریعت مخالف اعمال سرانجام دے کر گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ یہاں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول قابل ذکر ہے، آپ نے فرمایا:
وَنَفْسُكَ إِنْ لَمْ تَشْغَلْهَا بِالْحَقِّ وَإِلَّا شَغَلَتْكَ بِالْبَاطِلِ
”اگر تم اپنے نفس کو حق کے کاموں میں مشغول نہیں رکھو گے تو تمہارا نفس تمہیں باطل کے کاموں میں لگا دے گا۔“
(الجواب الکافی ط دار المعرفۃ: 156)
لہذا خیر کے کاموں میں نہ لگنے کی وجہ سے حیات مسلم نفع بخش کاموں سے عاری اور لہو ولعب میں مشغول نظر آتی ہے۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد جن لایعنی اور غیر مناسب چیزوں میں ضیاع وقت کا شکار ہے ان میں سے ایک ”پب جی بھی ہے۔
”پب جی (PUBG) کا تعارف: موجودہ متمدن دنیا کے اکثر کھیل نہ اخلاقی حدود کے پابند ہیں اور نہ کسی صحیح مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں بلکہ فقط وقت گزاری اور وقت بربادی کا سامان ہیں۔ یہی حال ”پب جی“ کا بھی ہے جسے Player Unkown's Battle Grounds کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا آنلائن ملٹی پلیئر (Online Multiplayer) گیم ہے جس میں کھیلنے والا (player) کسی ایک مقام پر خالی ہاتھ برہنہ اترتا ہے اور پھر ہتھیار اور دیگر اشیاء سے لیس ہو کر اپنی بقا کے لئے جنگ کرتا ہے اور لوگوں کو قتل کرتا پھرتا ہے۔ آخر میں جو بچتا ہے اسکو فاتح گردانا جاتا ہے اور چکن ڈنر (Chicken Dinner) کی شکل اسے انعام سے نوازا جاتا ہے۔
آج یہ کھیل بے حد مقبول ہو چکا ہے، خاص طور سے نوجوان اور بچوں کا طبقہ اس کھیل کا عادی ہو چکا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کھیل ایک نشہ بن چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ جب کوئی اس گیم کو کھیلتا ہے تو دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ اور جب اس گیم کو کھیلنے والے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بس اسی گیم کی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ نوجوانوں اور بچوں کے اس کھیل کے تئیں جنون اور اسی نا مناسب رویہ نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا ہے۔

”پب جی“ میں موجود شرعی مفاسد:
آئیے درج ذیل سطور میں اس کھیل میں موجود شریعت مخالف امور کا جائزہ لیتے ہیں:
(١) یہ لہو الحدیث ہے: 
اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ
”اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں۔“
(سورۃ لقمان: 6)
کچھ مفسرین نے ”لہو الحدیث“ کو عام رکھا ہے۔ چنانچہ مجاہد بن جبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو الغناء، وكلّ لعب لهو
”اس سے مراد گانا اور ہر طرح کا لہو لعب ہے۔“
(تفسیر طبری ط ھجر: 18/537۔ تفسیر عبد الرزاق ط دار الکتب العلمیۃ، صفحہ نمبر: 3/21۔ تفسیر سفیان الثوری ط دار الکتب العلمیۃ، روایۃ ابی جعفر، صفحہ نمبر: 238)
قتادۃ بن دعامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هُوَ كُلُّ لَهْوٍ وَلَعِبٍ
”اس سے مراد ہر قسم کا لہو ولعب ہے۔“
(تفسیر بغوی ط دار طیبۃ: 6/285۔ تفسیر ثعلبی ط دار احیاء التراث العربی:7/310)
(۲) وقت کا ضیاع اور فضولیات میں مصروفیت:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حیات مسلم میں فارغ اوقات یعنی عدم عمل کا تصور نہیں ہے۔ چہ جائیکہ اس وقت کو فضولیات اور گناہ کے کام میں صرف کیا جائے۔ کیونکہ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق بروز قیامت بازپرس ہوگی۔ فرمان نبوی ہے:
لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ
”آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔“
(سنن ترمذی، رقم الحدیث: 2416۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے)
اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے لہو ولعب میں مصروف رہنے پر سخت تنبیہ فرمائی ہے اور اللہ ﷻ کے عذاب کے نزول کا سبب بتایا ہے۔ فرمایا:
لَيَبِيتَنَّ قَوْمٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى طَعَامٍ وَشَرَابٍ وَلَهْوٍ، فَيُصْبِحُوا قَدْ مُسِخُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ
”اس امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو کھانے پینے اور لہو ولعب میں رات گزاریں گے لہذا وہ صبح اس حالت میں کریں گے کہ بندر اور خنزیر بنا دئے جائیں گے۔“
(مسند احمد ط دار الحدیث: 16/427، رقم الحدیث: 22689۔ تاریخ اصبہان ط دار الکتب الملمیۃ واللفظ لہ: 1/161۔ المعجم الصغیر للطبرانی ط المکتب الاسلامی: 1/115، رقم الحدیث: 168۔ مسند ابی داؤد الطیالسی ط ھجر: 2/456، رقم الحدیث: 1233۔ شعب الایمان للبیہقی ط الرشد: 7/420، رقم الحدیث: 5226۔ المستدرک للامام حاکم ط دار الحرمین: 4/687، رقم الحدیث: 8637۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیں: سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث: 1604)
سلف صالحین بھی وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی نصیحت اور ضیاع وقت اور لایعنی کاموں میں مشغول رہنے پر تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابْنَ آدَمَ، إِنَّمَا أَنْتَ أَيَّامٌ، كُلَّمَا ذَهَبَ يَوْمٌ ذَهَبَ بَعْضُكَ
”اے ابن آدم! تو مجموعہ ایام ہے، جب ایک دن گزر گیا تو گویا تیری زندگی کا ایک حصہ گزر گیا۔“
(الحلیۃ الاولیاء ط دار الفکر: 2/148۔ الزھد لاحمد ط دار الکتب العلمیۃ، صفحہ نمبر: 228، رقم الحدیث: 1586)
مزید فرماتے ہیں:
مِنْ عَلَامَةِ إِعْرَاضِ اللهِ تَعَالَى، عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَجْعَلَ شُغْلَهُ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ
”بندہ سے اللہ کے اعراض کی علامت یہ ہے کہ وہ بندہ کو لایعنی چیزوں میں مشغول کر دے“۔
(جامع العلوم والحکم ط دار السلام، صفحہ نمبر: 1/316، رقم الحدیث: 13۔ التمہید لابن عبد البر ط الأوقاف المغربیۃ:  9/200)
سبحان اللہ! اسلاف امت نے صرف کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سلسلہ میں عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ اسلاف کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا كَانَ أَحَدُهُمْ أَشَحُّ عَلَى عُمْرِهِ مِنْهُ عَلَى دِرْهَمِهِ وَدِينَارِهِ
”میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے درہم ودینار کی حرص سے زیادہ اپنے اوقات کے حریص تھے۔“
(العمر والشیب لابن ابی الدنیا ط الرشد، صفحہ نمبر: 81، رقم الحدیث: 91۔ شرح السنۃ للبغوی ط المکتب الاسلامی: 14/225۔ الزھد والرقائق لابن مبارک والزھد لنعیم بن حماد ط دار الکتب العلمیۃ: 1/4)
اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ان کا وقت فارغ گزرتا تو وہ نادم وپشیمان ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ بشر بن الحارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَرَرْتُ بِرَجُلٍ مِنَ الْعُبَّادِ بِالْبَصْرَةِ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: أَبْكِي عَلَى مَا فَرَّطْتُ مِنْ عُمْرِي، وَعَلَى يَوْمٍ مَضَى مِنْ أَجَلِي لَمْ يَحْسُنْ فِيهِ عَمَلِي
”میں بصرہ کے عبادت گزاروں میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ وہ رو رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا: آپ کو کس چیز نے رلایا؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں اپنی عمر کو ضائع کرنے پر آنسو بہا رہا ہوں اور اس بات پر رو رہا ہوں کہ میری عمر میں سے ایک دن گزر گیا اور اس میں میرے عمل میں بہتری نہیں ہوئی۔“
(المجالسۃ وجواھر العلم ط دار ابن حزم: 8/70، رقم الحدیث: 3376 و 2/33، رقم الحدیث: 182 و 5/35، رقم الحدیث: 1825۔ محاضرۃ الابرار لابن عربی ط دار الیقظۃ العربیۃ: 1/403)
عربی شاعر علی بن محمد البستی فرماتے ہیں:
إِذَا مَا مَضَى يَوْمٌ وَلَمْ أَصْطَنِعْ يَدًا ۔۔۔ وَلَمْ أَقْتَبِسْ عِلْمًا فَمَا هُوَ مِنْ عُمْرِي
’’جب ایک دن گزر گیا اور میں نے کوئی کام نہیں کیا      اور نہ ہی کوئی علمی فائدہ حاصل کیا تو وہ دن میری عمر کا حصہ نہیں۔‘‘
(جامع العلوم الحکم ط دار ابن الجوزی: 1/260، رقم الحدیث: 320)
اور فخر الدین ابن الخطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والله إني لأتأسف في الفوات عن الاشتغال بالعلم في وقت الأكل، فإن الوقت والزمان عزيز
”اللہ کی قسم کھانا کھاتے ہوئے علمی مشغلہ ترک کرنے کی وجہ سے مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت اور زمانہ قیمتی ہے۔“
(مسالک الابصار فی ممالک الامصار لابن فضل اللہ شہاب الدین العمری ط المجمع الثقافی: 9/112)
اوپر مذکور نصوص شرعیہ اور اقوال سلف کے باوجود بھی اگر کوئی غفلت کا شکار ہو کر دن ورات کھیل کود، فضولیات اور معاصیات میں گزار دے تو اس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟
درحقیقت آج کا مسلمان اس شعر کے مصداق نظر آتا ہے:
يسرّ المرء ما ذهب اللّيالي … وكان ذهابهنّ له ذهابا
”انسان راتوں کے گزرنے سے خوش ہوتا ہے     حالانکہ راتوں کا گزرنا درحقیقت اس کا گزرنا ہے۔“
ورنہ:
اگر نقد فرصت نہ یوں مفت کھوتے … یہی فخر آباء واجداد ہوتے
نہ ہوتے اگر مائل لہو بازی … ہزاروں انہیں میں تھے طوسی ورازی
(٣) اختلاط:
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ یہ ایک ملٹی پلیئر (Multiplayer) گیم ہے لہذا اس کھیل کو کھیلتے وقت مرد وعورت ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں۔ جو کہ اختلاط کی ہی ایک قسم ہے۔ مزید برآں یہ بات معروف ومشہور ہے کہ اگر وہ دونوں بات کریں گے تو ان کی باتیں صرف کھیل تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ یہ باتیں ذات تک تجاوز کر جائیں گی۔
(٤) سب وشتم:
بات (chat) کرنے کے دوران کھیلنے والے ایک دوسرے پر سب وشتم کرتے ہیں اور عداوت ودشمنی کا بیج بوتے ہیں۔
سب وشتم کی سنگینی کا اندازہ اس فرمان نبوی سے ہوتا ہے:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ
”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔“
(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 48)
(٥) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حق تلفی:
واقع شاہد ہے کہ اس گیم کو کھیلنے والا اس کھیل کا ایسا رسیا بن جاتا ہے کہ جہاں صلاۃ، صیام، ذکر واذکار اور تلاوت قرآن جیسے اہم امور کو ترک کر کے حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں کرتا وہیں بیوی بچوں، ماں باپ اور دوست واحباب کے حقوق کو پورا نہ کر کے حقوق العباد کی بھی حق تلفی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیات مسلم دینی امور کے تئیں غفلت کی شکار ہے اور شاید اسی وجہ سے آج اولاد نافرمان ہو رہی ہے۔
(٦) ذہنی (نفسیاتی) اور جسمانی نقصان:
اس گیم کو کھیلنے سے مزاج میں شدت پسندی اور اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے۔ لوٹ مار، قتل وغارت گری اور جرائم کو فروغ ملتا ہے۔ اور نوبت یہاں تک پہونچ جاتی ہے کہ لوگ ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتا کئی لوگ تو مسلسل کچھ گھنٹے اس گیم کو کھیلنے کے بعد اپنے آپ کو ہلاک کر کے جرم عظیم کے مرتکب ٹھہرے۔ اور کچھ ناعاقبت اندیشوں نے کھیلنے سے منع کرنے پر اپنے ہی اہل خانہ کو قتل کر دیا۔ جیسا کہ بعض اخبارات اور نیوز چینلز میں ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل گیم کھیلنے سے انگلیوں، آنکھوں اور سر وغیرہ پر اثر پڑتا ہے۔
یہ چند اہم شریعت مخالف امور ہیں جن پر یہ گیم مشتمل ہے اور یہ امور اس کی حرمت کے لئے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ شرع مخالف چیزیں اس کھیل میں پائی جاتی ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انہیں امور پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔
”پب جی“ کھیلنے والوں کے بعض شبہات کا جائزہ:
 (١) وقت گزاری (Time Pass):
آپ نے عصر حاضر میں بیشتر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ”میرے پاس وقت نہیں“ ”مجھے وقت نہیں ملتا“ لیکن اس کے باوجود آپ نے ایسے لوگوں کو ”پب جی جیسے لہو ولعب میں مشغول دیکھا ہوگا۔ کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ لوگ ایک طرف تو وقت نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں اور مشغولیت کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف لہو ولعب اور لا یعنی چیزوں میں اپنا وقت ضائع وبرباد کرتے ہیں۔
درحقیقت یہ اللہ ﷻ کا عذاب ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مِنْ عَلَامَةِ إِعْرَاضِ اللَّهِ تَعَالَى، عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَجْعَلَ شُغْلَهُ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ
”بندہ سے اللہ کے اعراض کی علامت یہ ہے کہ وہ بندہ کو لایعنی چیزوں میں مشغول کر دے“۔
(جامع العلوم والحکم ط دار السلام، صفحہ نمبر: 1/316، رقم الحدیث: 13۔ التمہید لابن عبد البر ط الأوقاف المغربیۃ:  9/200)
اور اگر واقعتا کسی کو اتنا وقت مل رہا ہے کہ وہ ”پب جی جیسے گیمز میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے تو اس کو اللہ ﷻ کے اس فرمان پر غور کرنا چاہئے:
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ¤ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ
پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر۔ اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔
(سورۃ الشرح: 7-8)
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
{فَارْغَبْ} أي: أعظم الرغبة في إجابة دعائك وقبول عباداتك. ولا تكن ممن إذا فرغوا وتفرغوا لعبوا وأعرضوا عن ربهم وعن ذكره، فتكون من الخاسرين
”{پس  متوجہ ہو جائیں} یعنی اپنی پکار کے جواب اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنی رغبت بڑھایئے۔ اور ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو فارغ ہوتے ہیں تو کھیل تماشے میں مصروف ہو جاتے ہیں، اپنے رب اور اس کے ذکر سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ (اگر آپ نے ایسا کیا) تو آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔“
(تفسیر سعدی)
لہذا واجبات (صلاۃ وصیام وغیرہ) کی ادائیگی کے بعد بھی اگر آپ کے پاس وقت بچ رہا ہے تو اس کو اللہ کی عبادت، ذکر واذکار اور تلاوت قرآن میں لگائیں۔ فضول اور معاصیت کے کاموں میں اپنا وقت لگا کر اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ 
یاد رکھیں! ہمیں اللہ کی عبادت کے لئے وقت نکالنا ہے، فضولیات اور معاصی اور لہو ولعب کے لئے نہیں۔ حدیث قدسی میں ہے، اللہ ﷻ فرماتا ہے:
يَا ابْنَ آدَمَ، تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ
اللہ ﷻٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔“
(سنن الترمذی: 2466، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
(۲) ذہنی تناؤ ختم کرنے کے لئے:
کچھ لوگ اس گیم کو ذہنی تناؤ دور کرنے اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کام کے بوجھ اور ذہنی تناؤ کو ختم کرنے اور سکون حاصل کرنے کا یہ واحد ذریعہ ہے؟ کیا ذہنی تناؤ کو ختم کرنے کے لئے اپنے وقت کو برباد کرنا چاہئے؟ یا اسے فضول کاموں اور معاصی میں لگانا چاہئے؟ اور کیا ذہنی تناؤ ختم کرنے کے لئے ”پب جی کھیل کر خود کو جسمانی اور ذہنی مرض کا شکار بنانا چاہئے؟ جب ”پب جی اور اس جیسے گیمز نہیں ہوتے تھے تو لوگ ذہنی تناؤ اور ٹینشن کو کیسے دور کرتے تھے؟ اسی طرح جو لوگ ”پب جی نہیں کھیلتے وہ کیسے اپنا ذہنی تناؤ ختم کرتے ہیں؟ اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
”جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔“
(سورۃ الرعد: 28)
سبحان اللہ! اللہ ﷻ نے سکون حاصل کرنے کا کتنا خوبصورت طریقہ بتایا ہے۔ فھل من مدکر؟ اور نبی اکرم ﷺ کے متعلق حدیث میں ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى
نبی اکرم کو  جب کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تو آپ صلاۃ پڑھتے۔
(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 1319۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے)
گویا کہ صلاۃ، تلاوت قرآن اور ذکر واذکار سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اور قلق واضطراب دور ہوتا ہے۔ لہذا ان چیزوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ 
(٣) سوشل گیم:
کچھ لوگ اس گیم کو اس لئے کھیلتے اور پسند کرتے ہیں کہ اس میں لوگوں سے تعلقات وروابط بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ حالانکہ یہ بجز دھوکہ کے اور کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تعلقات صرف اور صرف خیالاتی ہوتے ہیں اور انسان اس کی لپیٹ میں آ کر حقیقی سوشلائزیشن (socialization) کو فراموش کر بیٹھتا ہے اور بھائی بہن، بیوی بچے، دوست واحباب اور دیگر اقارب سے تعلقات وروابط کم کر دیتا ہے۔
ضرورت ہے کہ سوشلائزیشن (socialization) کے حقیقی مفہوم کو سمجھا جائے اور اہل وعیال، دوست واحباب اور اعزہ واقارب سے تعلقات استوار کیے جائیں اور ان کو وقت دیا جائے۔
(٤) ہدف (Goal):
اس گیم میں کھیلنے والے کو ایک ہدف ملتا ہے جس کی بنا پر کھیلنے والا اس گیم کی طرف راغب ہوتا ہے اور بڑی دلچسپی سے منہمک ہو کر کھیلتا ہے۔
در حقیقت یہ وہ لوگ ہیں جن کی خود کی زندگی میں ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا۔ ان کو اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا بننا ہے نہیں معلوم ہوتا۔ گویا کہ وہ مقصد حیات سے غافل ہیں اور زندگی میں ہدف کی عدم موجودگی کی بنا پر گیم میں موجود ہدف کی اہمیت ان کے نزدیک کہیں زیادہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے مقصد وجود کو سمجھا جائے اور اس کو پورا کرنے کیلئے انتھک کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی زندگی کو ایک مقصد اور ہدف دیا جائے۔
(٥) کامیابی اور انعامات:
اس گیم کو کھیلنے والا جب ایک مرحلہ (Level) عبور کر لیتا ہے تو اس کو انعام (reward) ملتا ہے۔ اس طرح درجہ بدرجہ خیالی کامیابی اور انعامات کے حصول کی وجہ سے انسان اس گیم کو کھیل کر خوش ہوتا ہے۔
ضرورت ہے کہ یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کی جائے کہ حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے اور دنیا وآخرت میں کامیابی دین پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
(٦) ہیرو بننے کا موقع:
یہ گیم کھیلنے والے کو ہیرو بننے کا موقع فراہم کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان ہیرو بننے کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اس بنا پر بھی لوگ اس کھیل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقتا یہ ہیروگری نہیں بلکہ بیوقوفی ہے۔ ہیروگری دکھانی ہے تو علم کے میدان میں دکھائیں جیسے ہمارے اسلاف نے اس میدان میں کمال پیدا کیا اور اس امت کے ہیرو قرار پاکر امام ومرجع بن گئے۔ اسی طرح میدان عمل میں ہیروگری دکھائیں اور ایسے اعمال انجام دیں جن کی بنا پر بروز قیامت ہیرو ٹھہرائے جائیں۔ مثلا اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت میں لگائیں بروز قیامت ان شاء اللہ عرش الہی کے سایہ میں جگہ پا کر ہیرو قرار پائیں گے۔ (صحیح بخاری: 660) اسی طرح اللہ کی محبت حاصل کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اللہ کی محبت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ جبرائیل علیہ السلام، دیگر ملائکہ اور اہل دنیا کی محبت حاصل ہو گی۔ اور درحقیقت یہی اصل میں ہیروگری ہے، فرمان نبوی ہے:
إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ۔ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ۔ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ۔ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ
”جب اللہ ﷻٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ ﷻٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو نداء دیتے ہیں کہ اللہ ﷻٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لئے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔“
(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3209)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام جہاں ہمیں ایک بامقصد زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں لہو ولعب سے اجتناب کرنے کی بھی نصیحت کرتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ انسان اپنے قیمتی لمحات دنیا وآخرت کی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے اور ہمیشہ اپنا مطمح نظر آخرت کو بنائے اور اس کے لئے خاص طور سے تگ ودو کرے کیونکہ یہ دنیوی زندگی اخروی زندگی کے لئے کھیتی کی مانند ہے جیسا ہم یہاں بوئیں گے کل یوم آخرت ویسا ہی بدلہ پائیں گے۔ لہذا اگر ہم نے وقت کی قدر کرتے ہوئے اس دنیوی زندگی کو اعمال صالحہ کا بیج بونے میں صرف کیا، لغو باتوں اور لہو ولعب سے اجتناب کیا تو اخروی زندگی باہیں پھیلائے فلاح ونجات اور جنت کے باغات کی شکل میں ہماری منتظر ہوگی۔ فرمان الہی ہے:
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ
کھاؤ اور پیو مزے سے، ان اعمال کی وجہ سے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں آگے بھیجے۔
)سورۃ الحاقۃ: 24)
اس کے برعکس اگر اس دنیوی زندگی کو غنیمت نہ سمجھا اور اسے سستی، کاہلی، لہو ولعب اور بد اعمالیوں میں برباد کر دیا تو حسرت وندامت اور جہنم کی ہولناکی ہماری منتظر ہوگی۔ فرمان الہی ہے:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ
”کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“
)سورۃ فاطر: 35)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کھیل کود اور تفریح سے کلی طور پر اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ اسلام تو کھیل کود کی ترغیب دیتا ہے اور اسکے لئے کچھ اصول وضواط مقرر کرتا ہے۔
کھیل کود کے متعلق شرعی نقطہ نظر:
اب یہاں کھیل کود کے متعلق شریعت اسلامیہ کے اصول وضوابط کو بالاختصار ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ کھیل کے متعلق شرعی نقطہ نظر کی آگاہی ہو سکے اور ان اصول وضوابط کی روشنی میں کھیل کود کے تئیں صحیح منہج کا تعین ہو سکے۔
کھیل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)وہ کھیل جن کے متعلق نص وارد ہو۔ اس کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(الف) وہ کھیل جن کے جواز کے متعلق نص شرعی وارد ہو، مثلا تیراکی اور تیر اندازی وغیرہ۔ عطا بن ابو رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ وَجَابِرَ بْنَ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيَّيْنِ يَرْمِيَانِ، فَمَلَّ أَحَدُهُمَا فَجَلَسَ فَقَالَ الْآخَرُ: «كَسِلْتَ؟» سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كُلُّ شَيْءٍ لَيْسَ مِنْ ذِكْرِ اللهِ فَهُوَ لَغْوٌ وَلَهْوٌ إِلَّا أَرْبَعَةَ خِصَالٍ: مَشْيٌ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ، وَتَأْدِيبُهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَتَعْلِيمُ السَّبَّاحَةِ
”میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری اور سیدنا جابر بن عمیر انصاری رضی اللہ عنہما کو تیر اندازی کرتے دیکھا، ان میں سے ایک اکتا کر بیٹھ گئے، دوسرے نے ان سے کہا: تم سست پڑ گئے ہو؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ذکر الٰہی کے علاوہ ہر چیز بیکار اور فضول ہے، سوائے ان چار چیزوں کے:
آدمی کا دو نشانوں کے درمیان چلنا (یعنی تیر اندازی سیکھنا)، گھوڑے کو سدھانا، بیوی کے ساتھ کھیلنا (اور خوش طبعی کرنا) اور تیراکی سیکھنا۔“
(السنن الکبری للنسائی ط الرسالۃ: 8/176، رقم الحدیث: 8889-8891۔ المعجم الکبیر للطبرانی ط مکتبۃ ابن تیمیۃ: 2/193، رقم الحدیث: 1785۔ السنن الکبری للبیہقی ط دار الکتب العلمیۃ: 10/26، رقم الحدیث: 19741۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث: 315)
ایسے کھیل کھیلنا مستحب ہے بلکہ بعض اوقات یہ وجوب کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
(ب) وہ کھیل جن کی حرمت پر نص وارد ہو، مثلا نرد اور کبوتر بازی وغیرہ۔ فرمان نبوی ہے:
مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ
”جس شخص نے چوسر کھیلی تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گو شت سے رنگ لیا۔‘‘
(صحیح مسلم، ترقیم دار السلام: 2260)
اور ایک روایت میں ہے:
فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُولَهُ
”اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 4938۔ سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3762۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے)
اور کبوتر بازی کے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَتْبَعُ حَمَامَةً، فَقَالَ: شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً
”رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کبوتری کا پیچھا کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: ایک شیطان ایک شیطانہ کا پیچھا کر رہا ہے۔“
(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 4938۔ سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3765۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن صحیح قرار دیا ہے)
ایسے کھیل سے اجتناب لازم وضروری ہے۔
(۲) وہ کھیل جن کے متعلق کوئی نص وارد نہ ہو۔ اس کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(الف) وہ کھیل جو محرمات پر مشتمل ہوں یا محرمات تک پہونچانے کا سبب بنتے ہوں یا شریعت کے قواعد وضوابط کے خلاف ہوں، مثلا پتنگ بازی، قمار بازی اور موسیقی پر مشتمل کھیل۔
(ب) وہ کھیل جو حرام کردہ اشیاء پر مشتمل نہ ہوں اور نہ شریعت کے اصول وقواعد کے خلاف ہوں، مثلا باسکٹ بال اور ٹینس وغیرہ۔ ایسے کھیل مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہیں:
پہلی شرط: قمار بازی اور سٹہ بازی سے پاک ہوں۔
دوسری شرط: واجبات وفرائض کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
تیسری شرط: حسب ضرورت کھیلا جائے اور زیادہ وقت نہ صرف کیا جائے۔
چوتھی شرط: فضول خرچی اور مالی ضرر نہ پایا جائے۔
پانچویں شرط: جسمانی اور ذہنی ضرر کا خطرہ نہ ہو۔
چھٹی شرط: خلاف شرع امور سے پاک وصاف ہوں۔
ساتویں شرط: صرف کھیل کی حیثیت دی جائے۔