Thursday, August 31, 2017

قربانی کی مشروعیت کی حکمت

قربانی کی مشروعیت کی حکمت

أَمَّا حِكْمَةُ مَشْرُوعِيَّتِهَا، فَهِيَ شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى نِعْمَةِ الْحَيَاةِ، وَإِحْيَاءُ سُنَّةِ سَيِّدِنَا إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيل عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ حِينَ أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ اسْمُهُ بِذَبْحِ الْفِدَاءِ عَنْ وَلَدِهِ إِسْمَاعِيل عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ فِي يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَنْ يَتَذَكَّرَ الْمُؤْمِنُ أَنَّ صَبْرَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيل عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ وَإِيثَارَهُمَا طَاعَةَ اللَّهِ وَمَحَبَّتَهُ عَلَى مَحَبَّةِ النَّفْسِ وَالْوَلَدِ كَانَا سَبَبَ الْفِدَاءِ وَرَفْعَ الْبَلاَءِ، فَإِذَا تَذَكَّرَ الْمُؤْمِنُ ذَلِكَ اقْتَدَى بِهِمَا فِي الصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ وَتَقْدِيمِ مَحَبَّتِهِ عَزَّ وَجَل عَلَى هَوَى النَّفْسِ وَشَهْوَتِهَا وَقَدْ يُقَال: أَيُّ عَلاَقَةٍ بَيْنَ إِرَاقَةِ الدَّمِ وَبَيْنَ شُكْرِ الْمُنْعِمِ عَزَّ وَجَل وَالتَّقَرُّبِ إِلَيْهِ؟ وَالْجَوَابُ مِنْ وَجْهَيْنِ: (أَحَدُهُمَا) أَنَّ هَذِهِ الإِْرَاقَةَ وَسِيلَةٌ لِلتَّوْسِعَةِ عَلَى النَّفْسِ وَأَهْل الْبَيْتِ، وَإِكْرَامِ الْجَارِ وَالضَّيْفِ، وَالتَّصَدُّقِ عَلَى الْفَقِيرِ، وَهَذِهِ كُلُّهَا مَظَاهِرُ لِلْفَرَحِ وَالسُّرُورِ بِمَا أَنْعَمَ اللَّهُ بِهِ عَلَى الإِْنْسَانِ، وَهَذَا تَحَدُّثٌ بِنِعْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى كَمَا قَال عَزَّ اسْمُهُ: {وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ} . (ثَانِيهِمَا) الْمُبَالَغَةُ فِي تَصْدِيقِ مَا أَخْبَرَ بِهِ اللَّهُ عَزَّ وَجَل مِنْ أَنَّهُ خَلَقَ الأَْنْعَامَ لِنَفْعِ الإِْنْسَانِ، وَأَذِنَ فِي ذَبْحِهَا وَنَحْرِهَا لِتَكُونَ طَعَامًا لَهُ. فَإِذَا نَازَعَهُ فِي حِل الذَّبْحِ وَالنَّحْرِ مُنَازِعٌ تَمْوِيهًا بِأَنَّهُمَا مِنَ الْقَسْوَةِ وَالتَّعْذِيبِ لِذِي رُوحٍ تَسْتَحِقُّ الرَّحْمَةَ وَالإِْنْصَافَ، كَانَ رَدُّهُ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَل الَّذِي خَلَقَنَا وَخَلَقَ هَذِهِ الْحَيَوَانَاتِ، وَأَمَرَنَا بِرَحْمَتِهَا وَالإِْحْسَانِ إِلَيْهَا، أَخْبَرَنَا وَهُوَ الْعَلِيمُ بِالْغَيْبِ أَنَّهُ خَلَقَهَا لَنَا وَأَبَاحَ تَذْكِيَتَهَا، وَأَكَّدَ هَذِهِ الإِْبَاحَةَ بِأَنْ جَعَل هَذِهِ التَّذْكِيَةَ قُرْبَةً فِي بَعْضِ الأَْحْيَانِ.
رہی اسکی مشروعیت کی حکمت، تو یہ زندگی کی نعمت پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرنا ہے، اور ابراھیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنا ہے، جس وقت کہ اللہ رب العزت نے انہیں قربانی کے دن اپنے لڑکے اسماعیل علیہ السلام کی طرف سے فدیہ ذبح کرنے کا حکم دیا تھا، اور یہ (بھی اسکی حکمت میں سے ہے) کہ مرد مومن اس بات کو یاد رکھے کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کا صبر کرنا اور ان کا اللہ کی اطاعت اور اسکی محبت کو اپنی جان اور اولاد کی محبت پر ترجیح دینا فدیہ کا اور بلا کے دور ہونے کا سبب ہوا، تو جب مومن اس بات کو یاد رکھے گا تو اللہ کی طاعت پر صبر اور اس کی محبت کو نفس کی خواہش اور شہوت پر مقدم کرنے میں انکی اقتدا کرے گا.

یہاں پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ خون بہانے اور منعم حقیقی کا شکر ادا کرنے اور اسکا تقرب حاصل کرنے کے درمیان کیا تعلق ہے؟ تو اس کے دو جواب ہیں:
اول: یہ کہ یہ خون بہانا خود اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر توسع کا سبب ہے، اور اسمیں پڑوسی اور مہمان کا اکرام ہے، اور فقیر کو صدقہ کرنا ہے، اور یہ سب اللہ کے اس انعام پر فرحت اور مسرت کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر کیا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تحدیث ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ.
(سورۃ الضحی: 11)

دوم: یہ اللہ ربّ العزت کی اس خبر کی مکمل تصدیق کرنا ہے کہ اس نے مویشی جانوروں کو انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے، اور انہیں ذبح اور قربانی کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ وہ انسان کی خوراک بنے.
اب اگر کوئی شخص ذبیحہ اور قربانی کے حلت میں یہ کہہ کر جھگڑا کرے کہ یہ ایک ذی روح مخلوق کے ساتھ زیادتی کرنا ہے اور اسے عذاب دینا ہے جب کہ وہ رحمت اور انصاف کا مستحق ہے، تو اس کا جواب یہ یہ ہوگا کہ جس اللہ نے ہمیں اور ان حیوانات کو پیدا کیا ہے اور ہمیں ان کے ساتھ رحم اور احسان کا کرنے حکم دیا ہے، اسی نے ہمیں یہ بتایا ہے، اور وہ غیب کا جاننے والا ہے، کہ اس نے ان کو ہمارے لئے پیدا کیا ہے اب انہیں ذبح کرنے کو ہمارے لئے مباح قرار دیا ہے، اور اس اباحت کو اس نے اس طرح مؤکد کیا ہے کہ بعض اوقات اس ذبح کو اس نے عبادت قرار دیا ہے.
(موسوعۃ فقہیہ کویتیہ: 5/76)

اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو روزہ رکھنا کیسا ہے؟

اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو روزہ رکھنا کیسا ہے؟

تحریر: عمر اثری​


عرفہ کا روزہ غیر حاجیوں کے لئے مشروع ہے. احادیث میں اس کی بہت زیادہ فضیلت وارد ہے فرمان نبوی ﷺ ہے:
صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ
ترجمہ: عرفہ کے دن کا روزہ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی
(صحیح مسلم: 1162)

لہذا ایک مسلمان کو اس فضیلت کے حصول کے لئے عرفہ کے دن روزہ رکھنا چاہیے.
یہاں ایک مسئلہ ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن پڑ جائے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے کیونکہ احادیث میں اکیلے جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ
ترجمہ: کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ نہ رکھتا ہو.
(صحیح بخاری: 1985)

یہ حدیث اس بات پر نص صریح ہے کہ اکیلے جمعہ کا روزہ رکھنا ممنوع ہے. اسی لئے کچھ لوگوں کو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یوم عرفہ اگر جمعہ کے دن ہو تو کیا صرف اس دن روزہ رکھنا صحیح ہو گا یا اس سے پہلے (یعنی جمعرات کے) دن بھی روزہ رکھنا ہوگا؟
اس تعلق سے عرض یہ ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، حافظ ابن حجر، شیخ ابن باز اور ابن عثیمین رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے. اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1) یوم عرفہ کے روزے والی حدیث عام ہے اور اس میں اس بات کا استثناء نہیں ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس دن روزہ نہیں رکھ سکتے.
2) احادیث میں ممانعت جمعہ کے دن کو خاص کرکے روزہ رکھنے کے متعلق ہے جبکہ یوم عرفہ کو روزہ جمعہ کی وجہ سے نہیں رکھا جاتا بلکہ وہ عرفہ کی وجہ سے رکھا جاتا ہے گویا کہ روزہ جمعہ کی تعظیم میں نہیں بلکہ یوم عرفہ کی تعظیم میں رکھا جاتا ہے لہٰذا حدیث میں جو ”نہی“ ہے اسکو اس پر محمول کریں گے جو جمعہ کی وجہ سے روزہ رکھتا ہو البتہ جس نے عرفہ کے دن کی وجہ سے روزہ رکھا کہ شریعت نے اس کی ترغیب اور تعلیم دی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ تن تنہا جمعہ کا روزہ رکھے.
3) سلف میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہے کہ اگر جمعہ اور عرفہ ایک ہی دن جمع ہو جائیں تو ایسی صورت میں روزہ نہیں رکھا جائے گا.
واللہ اعلم بالصواب

Tuesday, August 29, 2017

تکبیرات عید الاضحٰی کی مشروعیت کا سبب



تکبیرات عید الاضحٰی کی مشروعیت کا سبب


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال:
میں نے کچھ ویڈیوز میں سنا ہے کہ،
جب ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے جا رہے تھے تو وہ منظر دیکھ کر فرشتے اللہ اکبر اللہ اکبر کہنے لگے پھر انکو دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام نے کہا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر. پھر ان دونوں کو دیکھ کے اسمعیل علیہ السلام نے کہا اللہ اکبر وللہ الحمد. 
اور انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی.

تو یہ قصّہ صحیح ہے یا غلط وضاحت فرما دیں.

جواب:
آپ نے جس روایت کے متعلق استفسار کیا ہے وہ بایں الفاظ مروی ہے:
ورُوي أنَّه لمَّا ذبحه قال جبريلُ عليه السَّلامُ اللَّهُ أكبرُ اللَّهُ أكبرُ فقال الذَّبيحُ لا إله إلا الله والله أكبر فقالَ إبراهيمُ اللَّهُ أكبرُ ولِلَّهِ الحمدُ فبقي سُنَّةً 
ترجمہ: روایت کی جاتی ہے کہ جب (ابراہیم علیہ السلام) نے (اسماعیل علیہ السلام کو) ذبح (کرنے کا ارادہ) کیا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ”اللہ اکبر اللہ اکبر“ اسکے بعد ذبیح علیہ السلام نے کہا ”لا الہ الا اللہ واللہ اکبر“ پھر ابراہیم علیہ السلام نے کہا ”اللہ اکبر وللہ الحمد“ لہذا یہ (تکبیر) سنت کے طور پر باقی رہ گئی. 
(تفسیر قرطبی ط دار الکتب المصریہ: 15/102)

یہ روایت تفسیر قرطبی کے علاوہ کئی تفاسیر میں موجود ہے جیسے روح البیان، تفسیر النسفی، تفسیر ابی مسعود اور فتح البیان فی مقاصد القرآن وغیرہ لیکن ہر جگہ صیغہ تمریض کے ساتھ موجود ہے اور کافی تلاش کے باجود مجھے اس روایت کی سند نہیں مل سکی. اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ صیغہ تمریض سے بیان کی جانے والی روایت صحیح نہیں ہوتی ہے. لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
لم اجدہ
یعنی میں اسے نہیں پا سکا. 
(الکاف الشاف فی تخریج احادیث الکشاف: 141، رقم الحدیث: 293)

خلاصہ کلام یہ کہ تکبیرات کی مشروعیت کے متعلق مذکورہ روایت (قصے) کو بتانا صحیح نہیں ہے. 
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عمر اثری ابن عاشق علی اثری

صیغہ تمریض: صیغہ تمریض یعنی فعل مجہول
جسکا فاعل نا معلوم ہو اسکو فعل مجہول کہتے ہیں. 
جیسے:
قال عبد اللہ: عبد اللہ نے کہا (یہ فعل معروف ہے اسمیں معلوم ہے کہ کہنے والا عبد اللہ ہے) 
قیل: کہا جاتا ہے (یہ فعل مجہول ہے۔ اسمیں کہنے والا کون ہے یہ نہیں معلوم. اسی کو صیغہ تمریض کہتے ہیں) 


Sunday, August 13, 2017

قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی مغفرت؟ (حدیث کی تحقیق)

حدیث ”قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی مغفرت“ کی تحقیق

تحریر: عمر اثری

امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فَاطِمَةُ، قُومِي فَاشْهَدِي أُضْحِيَّتَكِ، فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ، وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عِمْرَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً، فَأَهْلُ ذَاكَ أَنْتُمْ، أَوْلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً​
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم کھڑی ہو اور اپنی قربانی (کے جانور) کا مشاہدہ کرو کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے تمہارے گناہ جو تم نے کئے ہیں معاف ہو جائیں گے اور تم یہ کہو ”بیشک میری صلاۃ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے“ عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آپ اور آپکی آل کے لئے خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے.
تخریج: معجم الکبیر للطبرانی: ١٨/٢٣٩، معجم الاوسط للطبرانی: ٣/٦٩ (٢٥٠٩)، الدعاء للطبرانی: ١/١٢٤٤ (٩٤٧)، مسند الرویانی: ١/١٣٤ (١٣٨)، مستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٤)، سنن الکبریٰ للبیہقی: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩١)، شعب الایمان للبیہقی: ٩/٤٥٢ (٦٩٥٧)، فضائل الاوقات للبیہقی، صفحہ: ١٠٨ (حدیث: ٢٥٥)، الکامل لابن عدی: ٨/٢٦٧
اس حدیث کا مدار ابو حمزة الثُّمالی پر ہے اور وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں منفرد ہیں. ابو حمزة الثُّمالی کا نام ثابت بن ابی صفیہ دینار الثُّمالی ہے جو کہ ضعیف الحدیث ہے.

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعيف الحديث ليس بشيء​

اسی طرح یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء​

امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعیف. ومرۃ: متروك​

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بثقة​
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: سؤالات البرقانی للدارقطنی: ٢٠، الضعفاء والمتروکین للنسائی: ٦٩، الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: ١/١٥٨، تہذیب الکمال للمزی: ٤/٣٥٧، تہذیب التہذیب لابن ججر: ١/٢٦٤، میزان الاعتدال للذہبی: ١/٣٦٣)

اسی طرح ابو حمزة الثُّمالی سے روایت کرنے والے راوی نضر بن اسماعیل البجلی بھی ضعیف راوی ہیں.
یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء
نسائی اور ابو زرعہ رحمہما اللہ کہتے ہیں:
ليس بالقوى​
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: میزان الاعتدال للذہبی: ٤/٢٥٥، تہذیب الکمال للمزی: ٢٩/٣٧٢، تہذیب التہذیب لابن حجر: ٤/٢٢١، تقریب التہذیب لابن حجر: ٧١٣٠)

لہٰذا یہ حدیث ابو حمزة الثُّمالی اور نضر بن اسماعیل البجلی کی وجہ سے ضعیف ہے.

تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اگرچہ صحیح کہا ہے لیکن یہاں ان سے سہو ہوا ہے. اسی لئے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے، کہتے ہیں:
فيه أبو حمزة الثُّمالي، وهو ضعيف جدا​
ترجمہ: اس کی سند میں ابو حمزة الثُّمالی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے.

اس حدیث کے دو شواہد بھی ہیں. ان میں سے ایک حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور دوسری علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لیکن دونوں احادیث سخت ضعیف ہیں بلکہ ان میں سے ایک (یعنی حدیث علی) موضوع ہے. تفصیل دیکھیں:
حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ:
اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٥) میں، ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے علل الحدیث: ٤/٤٩٥ میں اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء الکبیر: ٢/٣٧ میں «داود بن عبد الحميد عن عمرو بن قيس الملائي عن عطية عن أبي سعيد الخدري رضي اللّه عنه» کے طریق سے نقل کیا ہے. حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ - لِفَاطِمَةَ (عَلَيْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ): قُومِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا يُغْفَرُ لَكِ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبُكَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ خَاصَّةً أَوْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟، قَالَ: بَلْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً​
ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم اپنی قربانی (کے جانور) کے پاس کھڑی ہو جاؤ اور اسکا مشاہدہ کرو (یعنی قربان ہوتے ہوئے دیکھو) کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے. فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہم اہل بیت لئے خاص ہے یا ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ یہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے ہے.
اس سند میں دو علتیں ہیں:
١) عطیہ. یہ ابن سعد الکوفی ہے. یہ ضعیف راوی ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی: ٢٠/١٤٥، سیر اعلام النبلاء للذہبی: ٥/٣٢٥، میزان الاعتدال للذہبی: ٣/٧٩، تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/١١٤)

٢) داؤد بن عبدالحمید.
ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حديثه يدل على ضعفه​

عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روى عن عمرو بن قيس الملائي أحاديث لا يتابع عليها، منها: عن الملائي عن عطيةعن أبي سعيد يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها​
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: میزان الاعتدال للذہبی: ٢/١١، المغنی فی الضعفاء للذہبی: ١/٣١٩، لسان المیزان لابن حجر: ٣/٤٠٣)
لہٰذا یہ حدیث اس سند سے سخت ضعیف ہے. 
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے والد محترم ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث منکر ہے.
(علل الحدیث لابن ابی حاتم: ٤/٤٩٥)

حدیث علی رضی اللہ عنہ:
اس کو عبد بن حمید نے اپنی مسند (المنتخب): ١/١١٩ (٧٨) میں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبریٰ: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩٠) میں اور امام ابو قاسم اصبہانی رحمہ اللہ نے الترغیب والترھیب: ١/٢٤١ (٣٥٥) میں «سعيد بن زيد أخي حماد بن زيد عن عمرو بن خالد عن محمد بن علي عن آبائه عن علي رضي اللّه عنه» کے طریق سے مرفوعا بیان کیا ہے.
یہ حدیث اس سند سے موضوع ہے. کیونکہ اس میں ایک راوی عمرو بن خالد (ابو خالد القرشی) ہے. اس پر سخت جرح کی گی ہے. کئی محدثین نے اسے کذاب کہا ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/٢٦٧، تہذیب الکمال للمزی: ٢١/٦٠٣)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو منکر کہا ہے.
(ضعیف الترغیب: ٦٧٤)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت تمام طرق سے ضعیف ہے.
واللہ تعالی اعلم بالصواب