Sunday, December 16, 2018

کیا عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی؟

کیا عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی؟؟؟


سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ ایک حدیث بہت سننے میں آتی ہے کہ ”ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی۔“
یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟؟؟

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها
”جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی:
اپنے باپ کو، اپنے بھائی کو، اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو۔“
کچھ لوگ اس روایت کو حجاب کے ساتھ ذکر کرکے بیان کرتے ہیں:
أربعة يُسألون عن حجاب المرأة: أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها
”چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا:
اس کے باپ سے، اس کے بھائی سے، اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے۔“
اس معنی کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف روایت مجھے نہیں مل سکی۔ اور متعدد باحثین اور محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔
مزید یہ کہ یہ روایت شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو۔ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى
”اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔“
(سورۃ الانعام: 164)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ ، لَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ
”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ۔“
(سنن ابن ماجہ: 2669، سنن ترمذی: 2159۔ قال الشيخ الألباني: صحيح)

اور سوال میں مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا؟؟؟
خلاصہ کلام یہ کہ سوال میں مذکور روایت بے اصل ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھیں کہ اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے۔ فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
”اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“
(سورۃ التحریم: 6)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ
”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“
(سنن ابی داؤد: 495۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)

لہذا اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا تو بروز قیامت ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بنا پر اس کی باز پرس اور پکڑ ہوگی۔ فرمان نبوی ہے:
أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ
”سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا۔“ 
(صحیح مسلم: 1829)
واللہ اعلم بالصواب!

کتبہ: عمر اثری سنابلی

Wednesday, December 12, 2018

دل كے مردہ اور زندہ ہونے كے تین نشانیاں

دل كے مردہ اور زندہ ہونے كے تین نشانیاں ہیں؟


سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
”تین جگہوں پر اپنے دل کو دیکھو....لگتا ہے یا گھبراتا ہے....
1- قرآن كے سامنے بیٹھ کر دیکھو دل لگتا ہے یا گھبراتا ہے؟
2- ذکر کی مجالس میں بیٹھ کر دیکھو دل لگتا ہے یا گھبراتا ہے؟
3- تنہائی میں بیٹھ کر دیکھو دل اللہ كے لئے تڑپتا ہے یا گھبراتا ہے؟
اگر تیرا دل قرآن سے گھبرائے، اللہ كے ذکر کی مجالس سے گھبرائے، تنہائی سے گھبرائے تو تو اللہ سے مانگ کہ اللہ تجھے دل عطا فرمائے، تیرا دل مر چکا ہے۔

جواب: اسکی کوئی بھی صحیح یا ضعیف سند مجھے نہیں مل سکی۔ مشہور ویب سائٹ ”الدرر السنیۃ“ میں اس کے متعلق لکھا ہے:
ليس بحديث، بل هو من كلام الإمام ابن القيِّم في كتابه ((الفوائد))
”یہ حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ امام ابن القیم رحمہ اللہ کا کلام ہے جو انکی کتاب «الفوائد» میں موجود ہے۔“

گویا کہ یہ سرے سے حدیث ہی نہیں ہے لہذا اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا جائز نہیں۔
ابن القیم رحمہ اللہ سے یہ قول بایں الفاظ مروی ہے:
اطلب قلبك في ثلاثة مواطن: عند سماع القرآن، وفي مجالس الذِّكر، وفي أوقات الخَلوة، فإن لم تجده في هذه المواطن، فاسأل الله أن يمن عليك بقلب؛ فإنه لا قلب لك
”تین مقامات پر اپنے دل کو تلاش کرو:
1- قرآن سنتے وقت
2- ذکر کی مجالسں میں
3- خلوت کے اوقات میں
اگر ان مقامات میں اپنے دل کو نہ پاؤ تو اللہ ﷻ سے دل مانگو کیونکہ تمہارے پاس دل نہیں۔“
(الفوائد لابن القیم بتحقیق الشیخ محمد عزیر شمس: 218)

فائدہ: یہ قول ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بھی منسوب کر کے بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن اس قول کی نسبت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ شیخ ابو عمر اسامہ العتیبی نے وضاحت کی ہے۔

کتبہ: عمر اثری سنابلی

Monday, December 10, 2018

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا

تحریر: عمر اثری سنابلی


پہلے سوچا کہ کیا لکھوں کہ جہالت و نادانی کو اہمیت دینے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن لوگوں نے اصرار کیا اور کہا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے لہذا ان کے کہنے پر یہ کچھ جملے ندیم پوری صاحب آپ کے گوش گزار کرنے کی سعی کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے یہ کہ آپ اپنی حیثیت نہ بھولیں کہ آپ ایک عامی ہیں لہذا عامی کے جیسا برتاؤ کریں۔
دوسرے یہ کہ کیا آپ کو علماء پر طعن کا نقصان نہیں معلوم؟ کیا آپ نبی ﷺ کے طریقہ سے ہٹنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان پر ذرا غور کریں:
ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا
ترجمہ: جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے علماء کی قدر نہیں کرتا وہ میری امت میں سے نہیں۔
(صحیح الترغيب للالبانی، حدیث نمبر: 101)

کیا آپ کو قیامت کی مفلسی سے ڈر نہیں لگتا؟ نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا؛ فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ؛ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ
ترجمہ: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی ساز و سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہوگی، اس پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہوگا، اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2581)

کیا آپ کو ناکامی سے ڈر نہیں لگتا؟ ابوسنان الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا كان طالب قبل أن يتعلم مسألة في الدين يتعلم الوقيعة في الناس؛ متى يفلح؟
ترجمہ: جب طالب علم دین کا کوئی مسئلہ سیکھنے سے پہلے علماء پر طعن کو سیکھے گا تو کیسے کامیاب ہوگا؟
(ترتیب المدارک ط اوقاف المغرب: 4/104)

مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مالک بن دینار رحمہ اللہ کے قول کے مصداق نہ ہو جائیں! انہوں نے فرمایا تھا:
كَفَى بِالْمَرْءِ شَرًّا أَنْ لَا يَكُونَ صَالِحًا، وَهُوَ يَقَعُ فِي الصَّالِحِينَ
ترجمہ: آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خود نیک نا ہو اور نیک لوگوں کی عیب جوئی (اور غیبت) کرے۔
(شعب الایمان للبیہقی ط الرشد: 9/121، حدیث نمبر: 6358)

کیا آپ کو اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں؟؟؟ ذرا امام احمد بن اذرعی رحمہ اللہ کے قول پر بھی غور فرما لیں:
الوقيعة في أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب
ترجمہ: اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور سے انکے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ 
(الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی: 283)

اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من استخف بالعلماء ذهبت آخرته،
ترجمہ: جس نے علماء کی توہین کی اسکی آخرت برباد ہو گئی۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: 8/408)

جناب مجھے آپ کا یہ دوھرا رویہ پسند نہیں آیا کہ جب کوئی یزید رحمہ اللہ پر سب و شتم اور طعن کرتا ہے تو آپ ”تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ“ (یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کیا وه ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔) اور ”لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ“ (جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو) جیسے نصوص کو پیش کر کے ان کا دفاع کرتے ہیں جو کہ قابل تحسین عمل ہے لیکن آپ خود ان نصوص کو بھلا کر ایک فوت شدہ عالم پر طعن کر رہے ہیں؟ ان پر سب و شتم کرتے ہوئے ان سے محبت کا دعوی کرنے والوں کو ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کے مقلدین کے مشابہہ قرار دے رہے ہیں؟ یہ کیسا عمل ہے؟ رکئے جناب مجھے آپ کی اس بات (بکواس) پر حیرت و افسوس کا اظہار کر لینے دیجئے کہ ایک اہل حدیث بھی اس طرح کی جرات کر سکتا ہے؟ اور یہاں مجھے ایک شعر بھی پڑھ لینے دیجئے کہ آپ اس کے مصداق نظر آتے ہیں:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

آپ ایک ایسے عالم جو کہ برصغیر کے نہیں ان کی باتوں کو بنیاد بنا کر نہ جانے کیسے کیسے الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں اور خود بر صغیر کے علماء کے تعریفی اقوال کو فراموش کر بیٹھے ہیں؟
آپ کو اگر دو چار خطبے مل گئے تو آپ عالم نہیں بن گئے ہیں اور نہ آپ کچھ مناظرے کر کے مناظر ہو گئے ہیں کہ آپ ہمیں بتائیں کہ کون عالم کیسا ہے۔ یہ تو کبار علماء اور متخصصین کا میدان ہے وہ ضرورت سمجھیں گے تو کسی پر نقد کریں گے اور ضرورت محسوس نہیں کریں گے تو نہیں کریں گے۔
جناب! غلطی کس سے نہیں ہوتی ہے؟؟؟ بتائیں!!! کیا آپ سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا؟؟؟ اگر ہاں اور یقینا ہاں تو کیا غلطی کی اصلاح لعن طعن اور سب و شتم کر کے کی جاتی ہے؟؟؟ وہ بھی کسی کی وفات کے بعد؟؟؟؟ جناب یہ کام آپ علماء پر چھوڑ دیں اور خود کو ایسے کام کا مکلف نا بنائیں جس کے آپ مکلف نہیں!
یاد رکھیں آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ لہذا رب تعالی کے حضور جواب دہی کے احساس کو زندہ کریں اور اپنے اوقات کو مفید سرگرمیوں میں لگائیں اور علماء خصوصا کبار علماء پر زبان درازی سے گریز کریں۔

آخر میں جو اس طرح ہر کسی کی باتوں کو اہمیت دے کر اس کو اس کے مقصد میں کامیاب کرتے ہیں ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہ دیا کریں ایسے لوگوں کے طعن سے کسی عالم کی عزت نہیں گھٹتی۔ ایسے لوگوں کو اگر آپ اہمیت نہیں دیں گے تو دوچار لفظ بول کر خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔
بڑا افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ ہمارے اخوان دفاع کرتے ہوئے گالیوں سے جواب دے رہے ہیں۔ اور کچھ اخوان تو رد کرنے کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کچھ کہتا ہے فورا نام لے کر سوشل میڈیا پر رد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ رد وغیرہ علماء کا کام ہے آپ کا نہیں۔ علماء کو مناسب لگے گا تو کسی کی تردید کریں گے وگرنہ نہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ علماء دور اندیش ہوتے ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفتنةُ إذا أقبلت عرفها كل عالم، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل
ترجمہ: فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو جاھل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: 4/322، طبقات ابن سعد: 9/166)