Friday, March 30, 2018

سخت گرمی والے دن ”اللھم اجرنی من النار“ کا ذکر

سخت گرمی کے دن ”اللھم اجرنی من النار“ کا ذکر
تحریر: عمر اثری عاشق علی اثری

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے؟
جس دن بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے تو اس وقت اللہ ﷻ فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے کہ اے فرشتوں جاؤ زمین پر دیکھو میرے بندے اس گرمی میں کیا کہتے ہیں۔ اگر اس گرمی میں کوئی یہ چھوٹی سی دعا پڑھ لے ”اللھم اجرنی من النار“ تو اللہ ﷻ فرشتوں کو گواہ بنا کر اس شخص کو جہنم سے بخش دیتا ہے۔

جواب: مجھے ان الفاظ کے ساتھ کوئی روایت نہیں مل سکی۔ البتہ ایک روایت ملتی ہے جس میں سخت گرمی کے دن دعا کا تذکرہ ہے۔ لیکن اس میں ”اللہم اجرنی من النار“ کی جگہ ”اللھم اجرنی من حر جہنم“ کے الفاظ ہیں۔ روایت کے الفاظ بھی تھوڑے مختلف ہیں۔ امام ابن السنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى الْحُلْوَانِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا أَبُو صَالِحٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي دَرَّاجٌ، حَدَّثَنِي أَبُو الْهَيْثَمِ وَاسْمُهُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الْعُتْوَارِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَوْ عَنِ ابْنِ حُجَيْرةَ الْأَكْبَرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَوْ أَحَدِهِمَا - حَدَّثَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمٌ حَارٌّ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَ بِي مِنْ حَرِّكِ فَاشْهَدِي أَنِّي أَجَرْتُهُ، وَإِنْ كَانَ يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي قَدِ اسْتَجَارَنِي مِنْ زَمْهَرِيرِكِ، وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي قَدْ أَجَرْتُهُ. قَالُوا: مَا زَمْهَرِيرُ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: بَيْتٌ يُلْقَى فِيهِ الْكَافِرُ، فَيَتَمَيَّزُ مِنْ شِدَّةِ بَرْدِهَا بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس دن گرمی ہو، اس دن آدمی یہ دعا پڑھے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، آج کتنی گرمی ہے، اے اللہ تو مجھے جہنم کے گرمی سے بچا)
تو اللہ ﷻ جہنم سے فرماتا ہے: میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تری آگ سے میری پناہ طلب کی ہے۔ (اے جہنم) تو گواہ رہ کہ میں نے اسے جہنم سے بچا لیا ہے۔ اور اگر سخت سردی والے دن کوئی شخص یہ دعا پڑھتا ہے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، آج کتنی سخت سردی ہے، اے اللہ میں تجھ سے جہنم کی سردی سے پناہ چاہتا ہوں)
تو اللہ ﷻ جہنم سے فرماتا ہے: میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تیری سردی کی شدت سے میری پناہ طلب کی ہے۔ میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: یہ زمہریر جہنم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں ایک گھر ہے جہاں کافر کو ڈالا جائے گا تو سردی کی شدت سے اس کے جسم کے حصے (ٹکڑے ٹکڑے ہو کر) الگ ہو جائیں گے۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی ط دار القبلۃ: 265، حدیث نمبر: 306، الاسماء والصفات للبیہقی ط مکتبۃ السوادی: 1/459، حدیث نمبر: 387، التخویف من النار لابن رجب الحنبلی ط مکتبۃ المؤید: 60، النقض علی المریسی للدارمی ط مکتبۃ الرشد: 1/324)

روایت کا حکم:
➊ امام عجلونی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی ط مؤسسۃ الرسالۃ: 2/466، حدیث نمبر: 2982)

➋ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مقاصد الحسنۃ للسخاوی ط دار الکتاب العربی: 2/714، حدیث نمبر: 1283)

➌ علامہ ابن الدیبغ الشیبانی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(تمییز الطیب من الخبیث ط دار الکتاب العربی: 188)

➍ زرقانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
(مختصر مقاصد الحسنۃ ط المکتب الاسلامی: 241، حدیث نمبر: 1174)

➎ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ط دار المعارف: 13/950، حدیث نمبر: 6428)

➏ شیخ سلیم ہلالی حفظہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(عجالۃ الراغب المتمنی فی تخریج کتاب ”عمل الیوم واللیلۃ“ لابن السنی ط دار ابن حزم: 1/360، حدیث نمبر: 307)

یہی روایت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے حمزہ السہمی رحمہ اللہ تاریخ جرجان میں ذکر کیا ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ لاحِقُ بْنُ الْحُسَيْنِ الصَّدْرِيُّ حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عُمَيْرٍ الْقَاضِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأُزْدِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غَيَّاثٍ الْنَخْعِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخْعِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ يَوْمٌ حَارٌّ فَقَالَ الرَّجُلُ: لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مَا أَشَّدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَ بِي مِنْ حَرِّكِ وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي أَجَرْتُهُ وَإِذَا كَانَ يَوْمًا شديد البرد فقال العبد: لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ قَالَ اللَّهُ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَنِي مِنْ زَمْهَرِيرِكِ وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي قَدْ أَجَرْتُهُ قَالُوا: مَا زَمْهَرِيرُ جَهَّنَمَ؟ قَالَ: بَيْتٌ يُلْقَى فِيهِ الْكَافِرُ فَيَتَمَيَّزُ مِنْ شِدَّةِ بَرْدِهِ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ
(تاریخ جرجان لحمزۃ السہمی ط عالم الکتاب: 486)

اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں:
➊ لاحق بن الحسین: اس کے متعلق محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:
① ادریسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان كذابا أفاكا
مزید فرماتے ہیں:
يضع الحديث على الثقات ويسند المراسيل ويحدث عن من لم يسمع منهم
② ابن ماکولا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعتمد على حديثه ولا يفرح به
③ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدث بالموضوعات
④ ابن النجار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجمع على كذبه
(لسان المیزان لابن حجر ط مکتب المطبوعات الاسلامیۃ: 8/407، رقم الترجمۃ: 8400)

➋ ابو المرجی ضرار بن علی القاضی: یہ راوی مجہول ہے۔
(لسان المیزان لابن حجر ط مکتب المطبوعات الاسلامیۃ: 4/340، رقم الترجمۃ: 3965، میزان الاعتدال للذہبی ط دار الکتب العلمیۃ: 3/450، رقم الترجمۃ: 3959)

خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ لہذا اسکی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرنا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب!

Thursday, March 8, 2018

کون سی نماز کس نبی نے سب سے پہلے ادا کی؟

کون سی نماز کس نبی نے سب سے پہلے ادا کی؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال: کیا یہ پوسٹ صحیح ہے؟
فجر کی نماز حضرت آدم علیہ السلام نے صبح ہونے كے شکر میں پہلی بار ادا کی. کیونکہ آپ نے جنت میں کبھی رات نہیں دیکھی تھی.
ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام كی جان محفوظ رہنے کی خوشی میں پہلی بار ادا کی.
عصر کی نماز حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد پہلی بار ادا کی.
مغرب کی نماز حضرت داود علیہ السلام نے اپنی توبہ کے قبول ہونے کے بعد پہلی بار ادا کی. آپ نے نیت چار رکعت کی لیکن توبہ قبول ہونے پر تین رکعت پر سلام پھیر دیا.
عشاء کی نماز پہلی بار نبی اکرم ﷺ نے ادا فرمائی اسی لئے یہ آپ کی سب سے پسندیدہ نماز ہے. سبحان اللہ!

جواب: امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس طرح کی ایک روایت اپنی کتاب ”شرح معانی الآثار“ میں ذکر کی ہے اور غالب گمان ہے کہ اسی کو توڑ مروڑ کر اس پوسٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ روایت نا ہی مرفوع ہے اور نا ہی موقوف۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ : إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا ، فَصَارَتِ الظُّهْرُ ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ ، فَقِيلَ لَهُ : كَمْ لَبِثْتَ ؟ فَقَالَ : يَوْمًا ، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ : أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ . وَقَدْ قِيلَ : غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا . وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب صبح کے وقت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز فجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن پھر انھوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔ اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نماز عشاء) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں۔
(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)

اس روایت میں دو راوی ایسے ہیں جن کے متعلق کلمہ توثیق یا تجریح نہیں مل سکا.
1) قاسم بن جعفر: بدر الدین عینی نے بھی اپنی کتاب ”مغانی الاخیار“ میں ان کے متعلق کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 3/461)

2) بحر بن الحکم: اس کے متعلق بھی بدر الدین عینی نے کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 4/507)

کچھ علماء نے اپنی کتب میں اس معنی کی ایک اور روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے ذکر کی ہے اور تقریبا سب نے رافعی رحمہ اللہ کی طرف اس کو منسوب کیا ہے کہ انھوں نے مسند شافعی کی شرح میں اس طرح کی روایت نقل کی ہے۔ چنانچہ رافعی رحمہ اللہ مسند شافعی کی شرح میں لکھتے ہیں:
فعن عائشة أنه - صلى الله عليه وسلم - سئل عن هذه الصلوات فقال: "هذه مواريث آبائي وإخواني: أما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله لي ولأمتي تمحيصا ودرجات، ونسب صلاة العصر إلى سليمان، والمغرب إلى يعقوب، وصلاة العشاء إلى يونس، وصلاة الفجر إلى آدم
(شرح مسند شافی ط وزارة الاوقاف والشؤون الاسلاميہ: 1/253)

رافعی رحمہ اللہ نے اس کو بلا سند نقل کیا ہے۔ البتہ انھوں نے اپنی ایک دوسری کتاب ”التدوين في اخبار قزوين“ میں اس روایت کو سند کے ساتھ مرفوعا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
قالت عائشة رضي الله عنها قلت يا رسول الله ما هذه الصلاة قالت عائشة رضي الله عنها فقال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: هذه مواريث آبائي وإخواني من الأنبياء". فأما صلاة الفجر فتاب الله تعالى على أبي آدم عند طلوع الشمس فصلى لله تعالى ركعتين شكرا فجعلها تعالى لي ولأمتي كفارات وحسنات وأما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات أما صلاة العصر فتاب الله تعالى على أخي سليمان حين صار ظل كل شيء مثله أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات وأما صلاة المغرب فبشر الله تعالى يعقوب حين سقط القرص وحل الإفطار ثم أتاه جبرئيل فبشره أنه حي مرزؤق فصلى لله تعالى ثلاث ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولامتي تمحيصا وكفارت ودراجات. أما صلاة العشاء الآخرة فأخرج الله يونس من بطن الحوت كالفرخ لا جناح له حيث اشتبكت النجوم وغابت الشفق فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارت ودرجات ثم قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: "أرأيتم لو أن نهرا على باب أحدكم فاغتسل فيه كل يوم خمس مرات هل يبقى عليه من الدرن شيء" قالوا لا يا رسول الله! قال: فهذه الصلوة يغسلكم من الذنوب غسلا۔
(التدوين في اخبار قزوين ط دار الكتب العلميۃ: 3/379)

اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔
(لسان المیزان ط دار البشائر: 7/269)

تنبیہ: اس لمبی روایت کے آخر میں جو ٹکڑا ہے وہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں موجود ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا ، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ . قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا.
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(صحیح بخاری: 528)
واللہ اعلم بالصواب!

کتبہ: عمر اثری عاشق علی اثری